تحریر: حبیب اللہ سلفی فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں دھماکوں اور فائرنگ سے ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو ئے جس کے بعد پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ اور سرحدیں سیل کر کے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ خوشبوئوں اور روشنیوں کے شہر پیرس میں 1944 کے بعد پہلی مرتبہ کرفیو نافذ کیا گیا۔ پوپ فرانسس نے پیرس حملوں کو تیسری عالمی جنگ کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ ان حملوں کا مذہبی یا انسانی بنیادوں پر کوئی جواز نہیں ہے۔امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی طرح پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی اور عام شہریوں کے قتل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔
پیرس حملوں کی ذمہ داری مبینہ طور پر داعش نے قبول کی اور فرانس کو مسلمانوں پر حملوں کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے واشنگٹن، لندن اور روم کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ ان حملوں کے بعد پورے یورپ میں مسلمانوں کیلئے بہت زیادہ مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ خاص طور پرفرانس میں مسلمان سخت خوف و ہراس کی کیفیت میں ہیں۔ فرانسیسی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہا رکرتے ہوئے اپنے ملک میں مساجد میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے وہاں بسنے والے مسلمانوں کیلئے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
داعش نامی جس تنظیم کی دہشت گردی پر پورے یور پ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر اور عالم اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے ‘ کیا یہ بات حقیقت نہیں ہے کہ اسے تخلیق کرنے والے بھی خود امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک ہی ہیں؟ امریکہ عراق پر قبضہ کیلئے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کر سکتا ہے تو اسی ملک میں داعش ان کی مرضی کے بغیر کس طرح پروان چڑھتی رہی؟شام میں داعش کیخلاف کاروائی کو بھی محض پروپیگنڈا قرار دیاجارہا ہے اور آئی ایس آئی ایس کے خلاف کاروائی کے بہانے سنی مسلمانوں کاخون بہایاجارہا ہے۔سعودی عرب کے مفتی اعظم سمیت پوری دنیا کے جید علماء کرام ، مذہبی قائدین اور شیوخ الحدیث فتنہ تکفیر کا شکار داعش نامی تنظیم کو خارجی اور دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے نظریات کا رد کرتے آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود داعش کی کاروائی کے بہانے پورے عالم اسلام پر حملوں کی منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں ۔ یہ یورپ میں اسلام اورمسلمانوں کی پھیلتی ہوئی دعوت کے راستے روکنے کی بہت بڑی سازش ہے۔
All Parties Conference
منگل کواسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں سجادہ نشین حضرت میاںم یر اور ھدیة الھادی پاکستان کے سربراہ پیر ہارون گیلانی کی میزبانی میںپاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر حد سے بڑھتی جارحیت اور اندرونی و بیرونی سازشیں ناکام بنانے کیلئے متفقہ لائحہ ترتیب دینے کی خاطر آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میںجے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، پروفیسر حافظ محمد سعید، سراج الحق، لیاقت بلوچ، صاحبزادہ سلطان احمد علی، حافظ عاکف سعید، لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب، حافظ عبدالغفار روپڑی، قاری یعقوب شیخ، ڈاکٹر فرید پراچہ، مولانا امجد خاں، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، عبداللہ گل، حافظ خالد ولید و دیگر اہم شخصیات اور رہنمائوںنے شرکت کی۔ یہ ایک پروقار تقریب تھی جس کے انعقاد کیلئے پیر ہارون گیلانی اور قاری یعقوب شیخ نے خاص طو رپر بہت محنت کی اور ملک بھر کی قیادت سے باہم ملاقاتوں اور رابطوں کا اہتمام کیاگیا ۔ مجھے بھی اے پی سی میں شرکت کی دعوت پر اسلام آباد جانا ہوا اور مختلف مکاتب فکر و جماعتوں کے قائدین کو نظریہ پاکستان کیخلاف سازشوں، فرقہ وارانہ تشدد اور مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت گری جیسے مسائل پرسنجیدگی سے غوروفکر کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
چند دن قبل فرانس میں ہونیو الی دہشت گردی اور جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے تناظر میں اس آل پارٹیز کانفرنس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ۔اے پی سی میں شریک سبھی قائدین نے فرانس میں ہونیو الے حملوں کی واضح طو رپر مذمت کی تاہم اسلام و مسلمانوں کے خلاف مہم کو بھی ناقابل برداشت قراردیا گیا۔ اس دوران فرانس حادثہ کی آڑ میں مغربی قوتوں کے عالم اسلام پر دوبارہ حملوں کے خدشہ کے پیش نظر پاکستان سے او آئی سی کا اجلاس بنانے اور سعودی عرب و ترکی کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے پر زوردیا گیا۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ بات بالکل حقیقت ہے ۔ ماضی میں اسی طرح کے واقعات کی بنیاد پر مسلم ملکوں پر چڑھائی کر کے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا لیکن بعد ازاں صیہونی و یہودی لابی کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں نکلی۔ داعش کے بارے میں صاف طورپر کہاجاسکتا ہے کہ اس سے وابستہ لوگ غیر ملکی ایجنڈوں کو پروان چڑھا رہے ہیں اور یہ مسلمانوں کے نمائندہ نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل دعویٰ کیا گیا کہ صحرائے سینا میں گرنے والے روسی طیارہ کو داعش نے تباہ کیا ہے۔
حالانکہ جس علاقہ میں یہ روسی طیارہ گرا وہاں مصر کی عملداری برائے نام ہے اور اسرائیل کی طرف سے ایسے سکیورٹی انتظامات ہیں کہ اس کی مرضی کے بغیر جہاز گرانے کیلئے راکٹ جیسے ہتھیار لیجانا قطعی طور پر ممکن نہیں ہے۔اسی طرح فرانس جیسے ملک میں جس طرح منظم انداز میں دہشت گردی کی گئی ہے ‘ مقامی سہولت کاروں اور مکمل معلومات کے بغیرایسی خونریزی کرنا بھی داعش کے اپنے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی۔اس لئے پیرس میں قتل و خون بہانے کے حوالہ سے بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
ISIS
دوسری طرف بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیرس میں دہشت گردی کی طرح کشمیر، برما، فلسطین، شام اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کے بہائے جانے والے قتل و خون پر بھی بین الاقوامی برادری کو ایسے ہی ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے اور غاصب قوتوں پر دبائو بڑھا کر یہ تمام علاقے خالی کروانے چاہئیں وگرنہ یہی سمجھا جائے گاکہ مغرب کے نزدیک اپنے ملکوں کے علاوہ دوسرے خطوں میں بسنے والے لوگوں کی قدروقیمت اور انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اے پی سی کے دوران تمام مذہبی و سیاسی قائدین کی جانب سے بھارتی دبائو پر جماعةالدعوة اور اس کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کی کوریج پر پابندیوں کی شدید مذمت کی گئی اور اس کی ریلیف سرگرمیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومتی ہدایات پر پیمرا کی جانب سے نوٹس جاری کرنے سے زلزلہ متاثرہ علاقوں، تھرپارکر سندھ ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں جاری کروڑوں روپے مالیت کے رفاہی منصوبہ جات متاثر ہو رہے ہیں ۔ اس لئے پیمرا کو فی الفور یہ نوٹس واپس لینے کا حکم نامہ جاری کیا جائے۔
اے پی سی کے اختتام پر جاری کر دہ مشترکہ اعلامیہ بہت جاندار تھا جس میں آپریشن ضرب عضب کی کامیابی، ملک سے بیرونی ایجنسیوں کی مداخلت اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے افواج پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا اور کہا گیا کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتیں اور تمام ریاستی ادارے ایک پیج پر رہیں ‘ گڈ گورننس کو یقینی بنایا جائے اور حکومت ہر قسم کے مفادات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے۔اعلامیہ میں وزیر اعظم نواز شریف کے پاکستان کو لبرل بنانے کے بیان کو نظریہ پاکستان او رقرارداد مقاصد کی روح کے منافی قراردیتے ہوئے کہا گیا کہ بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے ملک کو سیکولر بنانے کی سازشوں کامتحد ہو کر مقابلہ کیاجائے گا۔پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں میں ہونیوالے دھماکوں اور تخریب کاری کو بھی ناجائز قرار دیا گیااوراس امر کا مطالبہ کیا گیا کہ داعش کی دہشت گردی اور فتنہ تکفیر کے خاتمہ کیلئے پورا عالم اسلام مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے اور اس حوالہ سے عملی اقدامات کئے جائیں۔
اسی طرح کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی گئی کہ پاکستانی قوم بھی نریندر مودی کے کشمیر کیلئے اعلان کردہ اقتصادی پیکج کو مسترد کرتی اوراسے تحریک آزادی کشمیر کا رخ موڑنے کی مذموم سازشوں کا حصہ سمجھتی ہے۔حریت قائدین کی باربار نظربندیوں و گرفتاریوں کی بھی سخت مذمت کی گئی ۔اے پی سی کے اختتام پر ملک گیر احیائے نظریہ پاکستان مہم کے حوالہ سے دس رکنی رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں پیرہارون گیلانی، لیاقت بلوچ، قاری یعقوب شیخ، حافظ عاکف سعید، مولانا امجد خاں و دیگر شامل ہیں۔ کامیاب اے پی سی کے انعقاد پر اس کے منتظمین یقینی طورپر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امید ہے کہ نظریہ پاکستان کے احیاء کی یہ مہم بھرپور انداز میں جاری رہے گی اور اس کے نتیجہ میں پاکستان میں سرکاری سطح پر فحاشی و عریانی اور بھارتی کلچر و ثقافت پروان چڑھانے کی سازشیں بھی ضرور ان شاء اللہ ناکام ہوں گی۔