کس کس کو یاد ہے؟

National Action Plan

National Action Plan

تحریر: مسز جمشید خاکوانی
کیا ہر بات کا پتہ جادو کی چھڑی والے لگائیں گے اور اب کے یہ گئے تو زمہ دار ان کے اپنے خودکش حملہ آور ہونگے جادو کی چھڑی والے نہیں۔ جب میں ایسے جملے پڑھتی ہوں مجھے پھر سے مشرف کی یاد آتی ہے جس نے کہا تھا آرمی کو اس کا کردار دینا پڑے گا مارشل لاء کو روکنے کا یہی ایک حل ہے لیکن اس وقت نیشنل سیکورٹی کونسل توڑ دی گئی اور اب نیشنل ایکشن پلان کا بھی بیڑا غرق کر دیا گیا۔

جس نیشنل ایکشن پلان کی دہائی اب دی جا رہی ہے کیا یہ اسی وقت مشرف کے ایجنڈے میں شامل نہ تھا ؟لیکن وردی اترتے ہی سارے منصوبے دھرے رہ گئے حالانکہ فہم و فراست وردی کی محتاج نہیں ہوتی نہ حب الوطنی سیاست کی میراث ہے نہ ہر جرم کے پیچھے جہادی چھپے ہیں یہ وہ آگ ہے جو ہمارے دشمن نے بھڑکائی ہے اور دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے ۔لہذا اب جو بھی دشمن کی ”منوکامنا ” پوری کرے گا اور ملک کو نقصان پہنچائے گا چاہے وہ امن کی آشا کا چولا پہن لے اسے اب بخشا نہیں جائے گا انہوں نے لوہے کی باڑھ لگائی ہے ہمیں بھلے انسانی جسموں کی باڑھ لگانی پڑے ملک ہر حال میں بچانا ہے حکمران کہتے رہیں سب اچھا ہے لیکن پنجاب کے بعد اب سندھ میں بھی گلو بٹ کلچر نے قانون کا تماشہ لگا دیا ہے ۔یہ ایک عجیب تماشہ تھا کہ سندھ پولیس کو سندھ کے تازہ وارد وزیر داخلہ نے آرڈر دیا ذلفقار مرزا کو کوٹ دو مار دو پھڑکا دو۔

انہوں نے لوگوں کو مارا پیٹا ،تشدد کیا ،گاڑیاں توڑ دیں ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ تعمیل حکم میں پنجاب کے گلو بٹوں سے پیچھے نہ رہ جائیں اگر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ذلفقار مرزا کو بچانے کے آرڈر نہ دیتے تو شائد اب تک انکی موت کی خبر شاہ سرخیوں میں لگی ہوتی اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کو حقوق تو دیئے نہیں بے لگام آزادی ضرور دے دی ہے جس سے وفاق مشکل میں پھنس گیا ہے زرداری صاحب کے ذہن میں یقیناً اپنے سسر کی طرح ادھر تم ادھر ہم والا فارمولا تھا کہ پنجاب کی بے تاج باشاہی میاں برادران سنبھالیں اور سندھ کی ملکہ نورجہاں زرداری صاحب خود بنیں جو پردے کے پیچھے بیٹھ کے شاہجہان (قائم علی شاہ) کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے ۔اس کے بعد شہزادہ عالم نے تخت سنبھالنا تھا اور پیچھے ڈوری ہلانے والے ہاتھ پھر زرداری کے ہوتے مگر برا ہو میڈیا کا جو عین وقت پر بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں پاکستان کو بنانے اور پھر بگاڑنے میں دو کردار بہت اہم ہیں ایک جیو جنگ گروپ اور دوسرا ریاض ملک کا ۔ملک ریاض نے لوگوں کو سوسائٹیوں میں بانٹا ،سیکورٹی حصار کا عادی کیا آسائشات مہیا کیں اور ان کو آسانی سے تھری کیٹیگری میں تقسیم کر دیا ۔بحریہ ٹائون میں جہاں اربوں کے محلات ہیں وہاں مرلوں میں مکانات بھی ہیں ملک ریاض صاحب کروڑوں کی رشوت دے کر صاحب اقتدار سے زمینیں اینٹھتے ہیں وہاں لاکھوں غریبوں کو روزگار اور ٹھکانہ بھی دیتے ہیں اور سنا ہے ان کے دستر خوان بھی لگتے ہیں جہاں سے ڈیڈھ لاکھ بندے روزانہ شکم پری کرتے ہیں لیکن ملک ریاض بھی بنیادی طور پر وہی کام کر رہے ہیں جو ہمارے پورے ملک پر قابض لوگ کرتے ہیں یعنی لوگوں کو تقسیم کرو اور حکومت کرو۔

Bribe

Bribe

ملک ریاض تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا انہوں نے زرداری کو رشوت کے لین دین میں سب سے کھرا پایا اسی لیئے ان کا کہنا ہے کہ میری دلی دوستی زرداری کے ساتھ ہے ایسا اور کون ملے گا جو لاکھوں ایکڑ اراضی کوڑیوں کے مول دے دے چاہے اس پہ دبئی ،لندن ،پیرس بن جائیں مگرملک ریاض بھی ایک ٹھیکیدار کے ذہن سے سوچتے ہیں ایک ملک کے لیڈر جیسا ذہن نہیں بنا سکے۔لیڈر محدود سوچ نہیں رکھتا ،مکان نہیں ملک بناتا ہے ہزاروں کی نہیں کروڑوں لوگوں کی سوچ رکھتا ہے کیا ملک ریاض کو یقین ہے کہ وہ اپنا ہر خواب رشوت دے کر پورا کر سکتے ہیں ؟ جس طرح ان کو یقین ہے کہ ہر بندے کی ایک قیمت ہوتی ہے کیانی کی قیمت لگا کر ان کے حوصلے ضرور بلند ہوئے ہونگے لیکن کچھ سر پھرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا وہ راستے کا پتھر بن جاتے ہیں جو رشوت اور سفارش کی ٹھوکر سے نہیں ہٹایا جا سکتا پھر اس کو ہٹانے کے لیئے کیلنڈر دیکھنے پڑتے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ وقت کے کیلنڈر میں تاریخ کس کی لکھی جانی ہے ۔زرداری اور ملک ریاض کا کمبی نیشن اس لیئے بھی اچھا بن گیا کہ ایک کو پیسہ چاہیئے تھا تو دوسرے کو مکمل اتھارٹی سو دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے ۔دلوں کے اس سودے میں شریفوں نے لات مار دی کیونکہ شریف اپنے نام سے آگے کسی کا نام نہیں دیکھ سکتے اسی لیئے سب کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ بھی جو ان کے لیئے پچیس سالہ سنہرہ دور تخلیق کیئے بیٹھے ہیں ۔شیخ رشید کے مطابق چائنا کوریڈور کے منصوبے کو کمزور کرنے میں خود نواز شریف کا ہاتھ ہے وہ فوج کے تعاون کو اجارہ داری سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں سیکورٹی سے لیکر تعمیرات تک فوج کا عمل دخل ہے ،لہذا اس کو سبوتاژ کرنے میں ان کا فائدہ ہی ہے۔

پاکستان میں جیو کا کردار بہت اہم ہے جیو نے لوگوں کی سوچ کو بدل ڈالا،پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ صاحب اقتدار لوگوں کی بھد اڑائی گئی ان کی پیروڈیاں بنیں مزاحیہ کردار تخلیق ہوئے لوگوں کا خوف ختم ہوا تو اس لہر میں مذہبی سوچ بھی بہہ گئی ۔مذھب لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں ،مذہب کا مذاق بنانے سے مذہب تو ختم نہیں ہوا اپنی ہی عزت جاتی رہی ۔جو ملک بنا ہی اللہ کی بنائی حدودقائم کرنے کے لیئے تھا اس کی سرحدیں ڈھانے کی کوششیں شروع ہو گئیں ۔یہاں تک لوگ سمجھنے سے عاری تھے لیکن جب سرحدی محافظوں کو ڈائریکٹ نشانہ بنایا گیا تو اس کا شدید رد عمل آیا کیونکہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس پہ صرف بھارت کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی جا سکتی اور بھارتی عزائم کا منہ توڑ جواب صرف ایک مضبوط فوج ہی دے سکتی ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے پاک رمی کو استقامت بخشی اور انہوں نے ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھال لیا ۔ابھی بہت سے کانٹے چننے باقی ہیں سنا ہے جیو نے اپنے معاملات سیدھے کر لیئے ہیں ۔ہم بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود کے اندر رہنا چاہیئے کہ ملک ہے تو ادارے بھی ہیں ورنہ جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر: مسز جمشید خاکوانی