جام چھلکے تو کوئی یاد آیا زخم مہکے تو کوئی یاد آیا جب بھی برسات کے نظاروں میں گھر سے نکلے تو کوئی یاد آیا زندگی کی اداس پلکوں پر اشک چمکے تو کوئی یاد آیا ہِجر کے بے کراں سمندر میں جب بھی اترے تو کوئی یاد آیا تِشنگی کے دیار شاہد ہیں ہونٹ سلگے تو کوئی یاد آیا رتجگے کی امین آنکھوں میں خواب اترے تو کوئی یاد آیا جب میری حالتِ پریشاں پر لوگ روئے تو کوئی یاد آیا سوچنے کا مقام ہے ساحل پی کے بہکے تو کوئی یاد آیا