صدر اور وزیراعظم نے آج ملک کا جو حال کر دیا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔حکمران اپنا قبلہ درست کرلیں ایسے کام نہیں چلے گا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم سے باہر نکل کر عوام کی حالت دیکھیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام کا کیا حال ہو گیا ہے۔ اربوں ڈالر کرپشن کی نظر ہوگئے ہیں۔ حکمران پاکستان کو جان بوجھ کر تباہ کر رہے ہیں۔ ان سے جان چھڑانا ہو گی۔ مہنگائی آخری حدوں تک پہنچ گئی ہے۔ ریلوے پی آئی اے تمام ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔ حکومت نے احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت کراچی کی بد امنی میں ملوث جماعتوں پر پابندی کے لئے ریفرنس دائر کرے۔
یہ تمام تر باتیں آج پاکستان کے ہر شہری کی آواز ہیں۔ بچے بچے کی زبان پر یہی باتیں ہیں۔ مگر یہ الفاظ در اصل ملک کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے اکتوبر 2011 میں پی پی پی کی حکومت کے لیے ادا کیے تھے۔ یہ وہی حکومت تھی جس کے متعلق بعد میں ان کے الفاظ یہ تھے کہ اس حکومت کی مدت پوری ہونے میں میاں صاحبان اور نواز لیگ کا بھی برابر کا کردار اور قربانیاں شامل ہیں۔گو کہ میاں صاحب نے حکومت وقت کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ حقیقت پر مبنی تھا۔ مگر اس وقت حالات کیا تھے اس کا تذکرہ نہایت ہی ضروری ہے۔ اکتوبر 2011میں جب میاں صاحب نے ان کلامات سے حکومت وقت کی تواضع کی تب ڈالر کی قیمت 87 روپے تھی اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض بھی اتنا نہ تھا جو کہ آج اکتوبر 2013 میں میاں صاحب کی حکومت کے ذمے واجب الادا ہے۔ آج ڈالر اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو چکا ہے۔ 107 روپے کی بلند ترین سطح پر ڈالر کی قیمت میاں صاحب کی حکومت میں ہوئی۔
تب بجلی کا بل 4 روپے 25 پیسے کے حساب سے آتا تھا۔ وہی آج 5 روپے سے تجاوز کر گیا۔تب جو پٹرول 83 روپے لٹر کے حساب سے عوام کو میسر تھا۔ آج 105 روپے سے بھی میسر نہیں آتا۔ بجلی کا شارٹ فال اس وقت اتنا نہ تھا جتنا آج میاں صاحب کی حکومت میں ہے۔ تب اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اتنی نہ تھیں جتنی آج اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ ملک کے کسی بھی کونے میں قتل و غارت اس حد تک 2011 میں نہ تھی جتنی آج بھگت رہے ہیں۔ کراچی میں گرنے والی لاشوں کی بات ہو یا بارڈر کی اشتعال انگیزی ملک میں جتنا جانی نقصان آج ہو رہا ہے آج سے دو سال قبل اس کی شرح واضح طور پر کم تھی۔ آٹا، چینی، دالیں، گھی خواہ کوئی بھی چیز ہو یہاں تک کہ ڈرون کی شرح بھی آج سے دو سال قبل ایسی نہ تھی جیسی آج ہے۔
Electricity Crisis
تب 24 گھنٹوں میں سے 16 17 گھنٹے بجلی میسر آتی تھی۔ جب کہ آج بجلی کے میسر ہونے کے اوقات گھٹ کر 7 سے 8 گھنٹے تک آگئے ہیں۔ملکی سطح پر معیشت کی اتنی بری حالت تو مارشل لاء کے دور میں بھی نہ تھی جتنی اس زحمت نما جمہوریت میں ہو گئی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کل جو باتیں میاں صاحب نے زرداری حکومت کے بارے میں کی تھیں۔ آج اس سے بد تر حالات ملک میں ہوگئے ہیں۔ تمام ادارے خالی ہیں۔کشکول پھر ہاتھ ہیں ہے، جس شرط پر بھی کوئی دے بھیک کے لیے تیار ہیں ۔اگر تب میاں صاحب کہ یہ خیالات تھے تو کیا آج عمران خان کے یا کسی بھی اپوزیشن نمائندے کے نام سے منصوب کر کے چھاپ دیے جائیں تو بے جا نہ لگیں گے۔ آج اس ملک میں بے روزگاری کی انتہا ہے۔ملک میں امریکہ کی پالیسیاں کبھی بھی ایسی حد تک نہ نافذ کی گئی جتنی آج کی جا رہی ہیں۔ زرداری صاحب کی حکومت میں کبھی بھی الیکشن میں دھاندلی کے لیے اتنی آوازیں نہیں تھیں جتنی آج اس ملک کے کونے کونے سے آرہی ہیں۔
اس ملک میں سرمایہ کاری ختم ہونے کی وجہ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا۔ نہ ہی اس کی طرف کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ مستقبل قریب میں ایسے بھی حالات بھی نظر آرہے ہیںکہ ڈالر 200 تک نکل جائے۔ اس ملک میں حکومت کے رئوے رواں جب تک اپنی دولت روپے سے منسوب نہ کریںاس ملک میں روپے کی قیمت مستحکم نہ ہوگی۔ جب تک ان کے اپنے کاروبار اس ملک میں نہ لائے جائیں گے۔ اس وقت تک اس ملک میں کوئی سرمایہ کاری ممکن نہیں۔حالات کے بہتر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی عوام کا ذہنی علاج کرایا جائے۔آج میاں صاحب اپنے متعلق وہ باتیں سازش کہہ کر ٹال دیں گے جو انہوں نے زرداری صاحب کے لیے ادا کی تھیں۔ عین ممکن ہے کہ اگر کسی قسم کا اگر کوئی تنائو حکومت میں پیدا ہوا تو زرداری صاحب کی پارٹی بھی نواز صاحب کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ میڈیا میں نعرے بازی یا پریس کانفرنس کرنے میں کوئی غلط نہیں۔ کل نواز لیگ نے عوام کو بہلا کے رکھا اور زرداری صاحب نے اپنا کام کیا۔ایسی ہی توقع اب پی پی پی سے کی جا سکتی ہے۔
آج میں بھی میاں صاحب کے الفاظ دہرائوں گا۔ درست کرلیں ایسے کام نہیں چلے گا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم سے باہر نکل کر عوام کی حالت دیکھیں ۔سڑکوں اور گلیوں میں لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کا کیا حال ہو گیا ہے۔ اربوں ڈالر کرپشن کی نظر ہوگئے ہیں۔ حکمران پاکستان کو جان بوجھ کر تباہ کر رہے ہیں۔ ان سے جان چھڑانا ہوگی۔ مہنگائی آخری حدوں تک پہنچ گئی ہے۔
ریلوے پی آئی اے تمام ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔ حکومت نے احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ کاش ہم میں اتنی اخلاقی جرات پیدا ہو کہ جو باتیں ہم لوگوں کے لیے کریں اسے اپنے لیے بھی سن سکیں۔ ملک میں کچھ بہتر نہیں ہوا۔ ہم کل جہاں تھے آج مزید برے حالات میں جا رہے ہیں۔ کل بھی عوام کو دلاسے تھے آج بھی۔ کل بھی عوام بہل گئی اب بھی بہل جائیگی۔ اگر کچھ ضرورت ہے تو اپنا قبلہ درست کرنے کی۔ ور میاں صاحب سے پوچھنے کی کہ عوام نے ساتھ دے دیا آپ اپنی قسم پوری کریں اور اب تقدیر بدل کر ہمیں مثبت تبدیلی دکھائیں جس کی تاحال تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔