تحریر : محمد صدیق پرہار ہم ایک دوست سے ملاقات کرنے کیلئے اس کی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاںہمارے ساتھ اورلوگ بھی موجودتھے۔ وہاں ایک ٹی وی بھی چل رہاتھا ۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ پرایک پروگرام دکھایا جارہا تھا۔پھرخودبخودہی حالات حاضرہ کاپروگرام غائب ہوگیا اس کی جگہ جانوروں نے لے لی۔شیر،ہرن، بارہ سنگھے ،ہاتھی اوردیگرجانورادھرسے ادھرجارہے تھے۔ کچھ دیرکے بعد جانوربھی غائب ہوگئے۔ اب ہم نے دیکھاکہ ٹی وی کی سکرین پرفٹ بال کامیچ ہورہا ہے ۔ ایک بڑی سی بے قصورگیندکوبڑے بڑے کھلاڑی پائوں ، گھٹنااورسرکی ٹھوکروںسے ادھرسے ادھرپھینک رہے ہیں۔کوئی اسے آگے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے توکوئی اس کوپیچھے کی طرف دھکیل رہا ہوتاہے۔ ٹی وی کی سکرین پریہ منظرتوکچھ دیرجاری رہا ۔ پھرہم کیادیکھتے ہیں کہ پکوان پکایا جارہا ہے۔ایک خاتون کوئی پکوان بنارہی ہے۔ ایک اورخاتون اس کے ساتھ چھری سے کوئی چیزکاٹ رہی ہے۔ دودیگچیاں بھی گیس کے چولھے پر چڑھارکھی ہیں۔وہ خاتون ساتھ ساتھ بتا بھی رہی تھی کہ اب ہم یہ کریں گے۔ اب ہم ہانڈی میں یہ چیزڈالیں گے۔ابھی اس خاتون نے پکوان مکمل تیارنہیںکیاتھا کہ ٹی وی کی سکرین نے کروٹ بدلی تو سامنے کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ایک کھلاڑی گیندکودورپھینک رہا تھا اوردوسرے کھلاڑی اس گیندکوپکڑنے کیلئے اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
ہم خاموشی سے ٹی وی کی سکرین پرنظریںجمائے یہ سب کچھ دیکھ بھی رہے تھے اوردل ہی دل میں سوچ بھی رہے تھے کہ یہ سب کچھ خوبخودکیسے ہورہا ہے۔کافی سوچ بچارکے بعدبھی یہ بات ہماری سمجھ میںنہ آئی کہ یہ سب کیسے ہورہا ہے۔ایک شخص ہاتھ میں موبائل کی طرح موبائل سے کچھ بڑی کوئی چیزہاتھ میں لیے بیٹھاہواتھا۔ہم آہستہ آہستہ اس کے نزدیک ہوگئے اوراس سے پوچھا کہ کیایہ آٹومیٹک ٹی وی ہے؟اس نے حیرانی سے پوچھا وہ کیسے ۔ ہم نے کہا کہ وہ ایسے کہ پہلے اس پرحالات حاضرہ کا پروگرام ہورہا تھا۔ پھرٹی وی پرجانوردکھائی دینے لگے۔پھرجانورغائب بھی غائب ہوگئے اب پکوان پکایاجارہاتھا۔ ہم نے کہا کہ ٹی وی کے پاس توکوئی گیا ہی نہیں کہ اس نے بٹنوںکوچھڑاہوجس کی وجہ سے باربارسکرین کے مناظرتبدیل ہورہے ہوں۔اس نے ہماری طرف حیرت بھری آنکھوں سے دیکھا اورکہا کہ میرے ہاتھ میں یہ چیزدیکھ رہے ہو۔ہم نے اثبات میںجواب دیاتواس نے کہا کہ اس کوریموٹ کہتے ہیںاوراس ٹی وی کوریموٹ کنٹرول ٹی وی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس ریموٹ سے ٹی وی کوہاتھ لگائے بغیرمرضی کے چینل لگائے جاسکتے ہیں ، جب چاہیں چینل تبدیل کرسکتے ہیں۔ ٹی وی بندکرسکتے ہیں اورچلاسکتے ہیں۔ آوازکم یازیادہ کرسکتے ہیں اس کے علاوہ بھی اس سے بہت سے ٹی وی سے متعلقہ کام لیے جاسکتے ہیں۔ ہم نے وہ موبائل نماچیزجسے ہمارے پاس بیٹھاہوا شخص ریموٹ بتارہا تھا اس سے لے لی۔
پھراس ریموٹ کوہم غورسے اسے ہرطرف سے دیکھنے لگے۔ہم نے اس شخص سے پوچھا کہ اس میں چارجرکی جگہ دکھائی نہیں دے رہی ۔ اس میں چارجرکہاں سے لگتا ہے۔ باریک پن والاچارجرلگتا ہے یا موٹی پن والا۔اس نے کہا کہ اس میں چارجرنہیں لگتا۔ ہم نے کہا کہ کیااس کو ری چارج نہیںکرتے۔ اس نے کہا نہیں۔ہم نے پوچھا کہ پھریہ کیسے کام کرتا ہے۔اس نے کہا کہ اس میں دوباریک سے بیٹری سیل ڈالے جاتے ہیں۔ جب یہ ریموٹ کام کرناچھوڑ دے تونئے سیل ڈالنے پڑتے ہیں۔جوں جوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے۔ انسان کیلئے آسانیوںمیں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ریموٹ بھی انسان کی سہولت کیلئے ہی ہے۔ اب اسی ٹی وی کے ریموٹ کودیکھ لیں کہ انسان کوچینل تبدیل کرنے، آوازکم یا زیادہ کرنے کیلئے اٹھ کرٹی وی کے پاس جانانہیں پڑتا بلکہ جہاں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ریموٹ کے بٹن دباکریہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔موجودہ دورمیں صرف ٹی وی ہی ریموٹ کنٹرول نہیں بلکہ بہت کچھ ریموٹ کنٹرول ہوچکا ہے۔ اب ایئرکنڈیشنڈ بھی ریموٹ سے چلائے جارہے ہیں۔ ان کی ٹھنڈک کم یازیادہ بھی ریموٹ سے کی جاتی ہے۔
MP3
گاڑیوں اوردکانوںمیں لگے ایم پی تھری کوبھی ریموٹ کی مددسے چلایاجاتا ہے۔یہ ریموٹ جہاںمثبت کاموںمیں استعمال ہوتا ہے وہاں یہ منفی کاموںمیںبھی استعمال ہوتا ہے۔ایک دوربھی ایسا بھی گزرا ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے ہواکرتے تھے۔ملک دشمن عناصر کسی خفیہ مقام پر کسی سیاسی یامذہبی جلسہ کے شروع ہونے سے پہلے بم رکھ دیا کرتے تھے۔ یہ بم کسی سرکاری ،سیاسی یامذہبی شخصیت کے راستے پربھی رکھے جاتے تھے۔ جب دیکھا جاتا کہ لوگوںکی مطلوبہ تعدادپوری ہوگئی ہے یا مطلوبہ شخصیت اس جگہ پہنچ گئی ہے دوربیٹھ کرریموٹ کابٹن دباکر دھماکہ کردیاجاتاتھا۔ایک دن وہ بھی آئے گا کہ چھت والے پنکھے بھی ریموٹ کنٹرول ہو جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوربھی بہت کچھ ریموٹ کنٹرول ہوجائے گا۔اس ریموٹ کومشینی ریموٹ بھی کہاجاسکتا ہے۔ موجودہ دورمیں صرف مشینی ریموٹ ہی نہیںپایاجاتابلکہ سیاسی اوردیگراقسام کے ریموٹ بھی پائے جاتے ہیں۔مشینی ریموٹ چاہے ٹی وی کاہو یاایئرکنڈیشنڈ کایہ دکھائی دیتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں صاف نظرآرہا ہوتا ہے کہ یہ ریموٹ کس کے ہاتھ میں ہے۔ جبکہ سیاسی ریموٹ نہ توخوددکھائی دیتا ہے اورنہ ہی کسی کے ہاتھ میں نظرآتا ہے۔حالات وواقعات دیکھ کراندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی ریموٹ کس کے ہاتھ میں ہے۔ ہرٹی وی کاریموٹ ایک ہی ریموٹ نہیںہوتا۔ٹی وی بنانے والے ہرخاندان کا اپناریموٹ ہوتا ہے۔
ایک خاندان (کمپنی) کے ریموٹ سے دوسرے خاندان کے ٹی وی کوکنٹرول نہیںکیاجاسکتا۔اسی طرح ہرسیاسی ریموٹ ہرجگہ کام نہیںکرتا۔یہ ریموٹ سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامی ریموٹ بھی ہوتا ہے۔سیاسی ریموٹ کی بات بعدمیںکریںگے پہلے انتظامی ریموٹ کی بات کرلیتے ہیں۔ انتظامی ریموٹ دنیابھرمیںپایا جاتا ہے۔مسئلہ کشمیرکاریموٹ اقوام متحدہ کے پاس ہے۔ اس نے اس ریموٹ کے سیل نکال کرایک طرف رکھ دیا ہے۔یہ ریموٹ بھارت نے خود ہی اقوام متحدہ کودیاتھا۔پاکستان نے بارہا اس کوکہا ہے کہ مسئلہ کشمیرکاریموٹ اٹھائے مگروہ سنتاہی نہیں۔اقوام متحدہ سلامتی کونسل اورعالمی مالیاتی اداروںکاریموٹ امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔افغانستان کاریموٹ میں نہ جانے کیاخاصیت ہے کہ کبھی کوئی اسے چھننے کی کوشش کرتاہے توکبھی کوئی۔ کبھی اسے برطانیہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے توکبھی امریکہ۔اسلامی سربراہی کانفرنس کاریموٹ کبھی پاکستان کے ہاتھ میںتھا۔کشمیرکمیٹی کاریموٹ کس کے پاس ہے یہ بتانے یالکھنے کی ضرورت نہیں سب اچھی طرح جانتے ہیں۔اب سیاسی ریموٹ کی بات ہوجائے۔جس طرح ہر ٹی وی کے خاندان کااپنا ریموٹ ہوتا ہے ایک خاندان کے ریموٹ سے دوسرے خاندان کے ٹی وی کوکنٹرول نہیںکیاجاسکتا اسی طرح ہرسیاسی جماعت کااپناریموٹ ہوتا ہے کسی ایک سیاسی جماعت کے ریموٹ سے کسی دوسری سیاسی پارٹی کوکنٹرول نہیںکیاجاسکتا۔
دویادوسے زیادہ سیاسی جماعتیں کسی جگہ اکٹھی بھی ہوجائیںتوہرسیاسی جماعت کااپناریموٹ ہی کام کرتا ہے۔مسلم لیگ کاریموٹ پاکستان بننے سے پہلے قائداعظم کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ سے کئی اورمسلم لیگیں بنتی گئیں۔مسلم لیگ ن کاریموٹ شروع سے اب تک نوازشریف کے ہاتھ میں ہے۔پیپلزپارٹی کاریموٹ پہلے ذوالفقارعلی بھٹوکے ہاتھ میں تھا۔ پھریہ نصرت بھٹوکے ہاتھ میں آیا۔نصرت بھٹوسے یہ ریموٹ بینظیربھٹوکے پاس چلاگیا۔بینظیرکی شہادت کے بعدیہ ریموٹ اب آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ مسلم لیگ ق کاریموٹ کبھی مشرف کے ہاتھ میں تھااب چوہدری برادران کے ہاتھ میں ہے۔ایم کیوایم کاریموٹ الطاف حسین کے ہاتھ میںتھا۔جسے وہ لندن میں بیٹھ کراستعمال کیاکرتے تھے۔اب ایم کیوایم کی بہت سی شخصیات نے وہ پرزے نکال دیئے ہیںجس سے وہ الطاف حسین کے ریموٹ سے کنٹرول ہواکرتے تھے۔پاکستان میں ایم کیوایم کاریموٹ اب فاروق ستارکے ہاتھ میں آگیا ہے۔تحریک انصاف کاریموٹ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ منہاج القرآن اورعوامی تحریک کاریموٹ طاہرالقادری کے ہاتھ میں ہے۔پاکستان میں اوربھی بہت سی سیاسی جماعتیںکام کررہی ہیں۔ہرسیاسی جماعت کاریموٹ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں ضرور ہے۔ٹی وی کاریموٹ زیادہ فاصلہ سے کام نہیںکرتا۔ جبکہ سیاسی ریموٹ کیلئے فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔یہ ریموٹ دنیابھرسے کام کررہے ہیں۔الطاف حسین لندن میں بیٹھ کریہ ریموٹ استعمال کیاکرتے تھے۔طاہرالقادری چاہے پاکستان میںہوں یاپاکستان سے باہرکینیڈا یاکسی دوسرے ملک میںہوں ان کاریموٹ وہاں بھی کام کرتا ہے۔ایک مرتبہ جہازمیں ان کے ریموٹ نے کام کرناچھوڑ دیاتھا۔وہ کہتے ہیں سانحہ ماڈل ٹائون کاریموٹ حکومت کے پاس تھا ۔ حکومت کہتی ہے کہ اس کے پاس یہ ریموٹ نہیں ہے۔
PTI Protest
پی ٹی آئی اورپی اے ٹی نے گزشتہ سال اسلام آبادمیںد ھرنادیا۔اس دھرنے کاریموٹ عمران خان کے پاس تھا یاکسی اورکے پاس یہ ابھی واضح نہیںہوسکا۔عمران خان کی باتوں سے تویہ لگتاتھا کہ اس دھرنے کاریموٹ ایمپائرکے پاس ہے۔ اب یہ ایمپائرکون ہے انہوںنے یہ نہیں بتایا۔وہ کہتے رہے کہ ایمپائر ریموٹ کابٹن دبائے گاتوحکومت ختم ہوجائے گی۔نوازشریف کے پاس دوریموٹ ہیں ایک مسلم لیگ ن کادوسراحکومت پاکستان کا۔عمران خان کہتے رہے کہ نوازشریف حکومت کاریموٹ چھوڑ دیں۔عمران خان یہ بھی کہتے رہے ہیںکہ نوازشریف نے الیکشن کے ریموٹ میں گڑبڑ کرکے مرضی کے نتائج حاصل کر لیے ہیں۔حالانکہ الیکشن کاریموٹ کسی سیاستدان کے پاس نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے۔دھرنے کاریموٹ ایمپائرکے ہاتھ میں تھایانہیں اس دھرنے کاایک ریموٹ عمران خان کے ہاتھ میں بھی تھا۔ویسے دیکھاجائے توایمپائرکے ریموٹ کے علاوہ اس دھرنے کے دواورریموٹ بھی تھے۔ایک ریموٹ طاہرالقادری کے پاس تھا اورایک ریموٹ عمران خان کے پاس۔طاہرالقادری نے ریموٹ کابٹن پہلے دبادیا اوردھرناختم کردیا جبکہ عمران خان نے دھرناختم کرنے والابٹن بعدمیںدبایا۔ طاہرالقادری نے زداری دورحکومت میں بھی دھرنادیا۔ اس دھرنے کاریموٹ توطاہرالقادری کے ہاتھ میں تھا۔پہلے تووہ مبارک مبارک کہتے رہے جیسے اس کے ریموٹ نے مطلوبہ کام کرلیاہوپھردھرناختم کرنے والابٹن دبادیا۔ اب عمران خان پھر اسلام آبادبندکرنے کی تاریخ پہ تاریخ دے رہے ہیں۔ اس کاریموٹ کس کے پاس ہے یہ ابھی نہیںبتایاجاسکتا۔
پاکستان میں حکومتوںکے ریموٹ بھی کبھی صدرکے پاس رہے توکبھی وزیراعظم کے پاس۔ جب کبھی صدرایوب، جنرل ضیاء الحق اورمشرف کے پاس بھی رہے ہیں۔پاکستان میں دیگرچھوٹی بڑی تنظیموں کے ریموٹ بھی کسی نہ کسی کے پاس ہیں۔ایسے ریموٹ بھی ہیںجوکبھی کسی کے پاس ہوتے ہیںتوکبھی کسی کے پاس۔کبھی ساس کاریموٹ بہوکے ہاتھ میںہوتا ہے توکبھی بہوکاریموٹ ساس کے ہاتھ میں۔ کبھی بیوی کاریموٹ شوہرکے ہاتھ میںہوتا ہے توکبھی شوہرکاریموٹ بیویوںکے ہاتھ میں۔ اس دورمیں یہ ریموٹ زیادہ تربیویوں کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔پہلے خاندانوں ، بستیوں، قبیلوں کے ریموٹ کسی نہ کسی بزرگ کے ہاتھ میںہواکرتے تھے۔ اب ہرگھرکااپناریموٹ ہے بلکہ ایک ہی گھرمیں کئی کئی ریموٹ پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کاریموٹ کس کس کے ہاتھ میں ہے یہ قوم کابچہ بچہ جانتا ہے۔
جبکہ دہشت گردی ختم کرنے کاریموٹ اب آرمی چیف راحیل شریف کے پاس ہے۔جب سے یہ ریموٹ راحیل شریف کے ہاتھ میں آیا ہے تب سے دہشت گردی ختم ہورہی ہے۔یہ ریموٹ چندہفتوںمیںکسی اورکے پاس آجائے گا۔ جبکہ قوم چاہتی ہے کہ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوتی اس وقت تک یہ ریموٹ راحیل شریف کے پاس ہی رہے۔ ملک میں ترقی ،خوشحالی، استحکام، قومی وقار کا ریموٹ بھی ہے۔ یہ ریموٹ ہم سب کے پاس ہے۔ یہ ریموٹ ایمانداری، دیانتداری، خلوص، محنت، لگن اوروطن سے محبت سے کام کرتا ہے۔اس تحریر کے آغاز میں ہم نے جوٹی وی اورریموٹ کی کہانی لکھی ہے وہ صرف قارئین کو ریموٹ کی اہمیت یاددلانے کیلئے تھی۔امریکہ،برطانیہ، اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی اداروں اورسیاستدانوں کے پاس جوریموٹ ہے اس کامطلب کنٹرول ہے۔جس کاریموٹ جس کے پاس ہے وہی اس کوکنٹرول کرتاہے۔سیاسی اورانتظامی ریموٹ سیلوں سے نہیں بلکہ پالیسیوں اوراحکامات سے چلتا ہے۔