تحریر : ظہیر رونجہ پچھلے ہفتے مجھے آفس کے ضروری کام کی وجہ سے دوسرے شہر جا نا تھا گھر سے نکلتے وقت میرا تین سال کا بیٹا مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا میں اس کی سوالیہ نظریں دیکھ کر واپس پلٹا اور گو د میں جاکر اسے بہلانے کے انداز میں پوچھا بیٹا آپ کے لیئے کیا لاوں ایک منٹ کی خاموشی کے بعد اس نے لب ہلاے اور کان میں سرگوشی کے اندازمیں بولا کہ ابو میرے لیے ریمورٹ والی گاڑی لانا میں نے اس کے گال پہ تپکی دی اور اپنے سفر پرروانہ ہو۔1 نومبر 2016 کی شام کو ایک بہت انہماک خبر ملی کہ گڈانی شب بریکنک یارڈ میں آگ لگ گی جس کی وجہ سے بہت مزدور جھلس گے اور کہیں اس آگ کی لپٹ میں آکر زندہ جل گے ہیں دن بھر کے تھکا دینے والے کام کے بعد رات کو جوں ہی میں نرم بستر پر سونے گیا تو بیس اور پچیس اکتوبر کی درمیانی سپ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے حملے میں شہید ان اکسٹھ نوجوانوں اور مزدوروں کی خواہشات دماغ میں سوالوں کی طرح گردش کررہے تھے۔
ان ہی سوالوں کے بیچ میں میر ے تین سالہ بیٹے کامعصوم چہرہ اور اسکی ایک پیاری سی خواہش زور سے آکر میرے دماغ سے ٹھکرائی اسخوف سے میں نے کچھ وقفے کے لیے آنکھیں بند کر دی ،گڈانی اور کوئٹہ کے سانحے پر سوچنے لگا کہ ان سب کا کسی نہ کسی کا تین سال کا بیٹا ہو گا بلکہ ان کے ساتھ جڑے ماں ،بہن ،بیٹی،بچے سب اپنی اپنی جگہ مطمن تھے ان کے بیٹوں ،بھایئوں ،خاوندوں کو نوکری مل گئی تھی اور عنقریب تنخواہ بھی ملنے والی تھی ایک گھر میں کئی خواہشات تشنہ ہوتی ہیں یہ تو اکسٹھ گھروں کی مشترکہ داستان ہے کسی نے ان کے ہا تھ پیلے کرنے تھے تو کسی کے ماں باپ منتظر تھے کہ بیٹے کی کمائی سے آخری عمر میں پہلی عمر کی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے۔
کچھ گھروں میں بچوں کو باپ کی نوکری کے بعد نت نئے کھلونے اور گھومنے پھرنے کے خواب رات سوتے میں نظر آتے تھے کہیں اپنے منگیتر کی نوکری لگنے پر جوش آنکھوں میں سہانے خواب بسائے مشرقی روایات کی پروردہ بیٹیاں منتظر تھیں چن ماہ مزید گزرنے کے اور تو سریاب روڈ کوئٹہ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے اندر موجود نوجوان محض پولیس کیڈنس نہیں تھے جیتے جاگتے انسان تھے جنکی اپنی خواہشات ،امنگیں ،خواب ،نظریات تھے ۔رات سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے ہر ایک کے ذہن میں کوئی نہ کوئی منصوبہ تھا۔
Police Man
پولیس سروس میں آکر اپنے شہر اپنے وطن کی خدمت کا جذبہ ،گھر والوں کی مالی معاونت ،اپنی ذاتی زندگی کے خوابوں کی تکمیل ۔ٹھیک ان ہی کی طرح گڈانی میں آگ میں جھلسنے والے مزدور کا کوئی خواب ہوگا کہ آج اس کی کمائی سے بچوں کے لیے کچھ خرید کر گھروں کو لوٹے گے لیکن بچوں ،بھایئوں،بہنوں ،بیوں کو کیا پتہ کہ انکی امید آج بُجھ چکی ہے آج انکے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں انہیں ایک وقت کی روٹی اب نصیب ہو کہ نہ ہو ۔اب ان معصوم چہروں کی فرماہش کون پوری کرے گا ۔نیند نے اپنا پورا زور پکڑ لیا تھا کہ بیٹے کی آواز کانوں میں گونجی اور دل میں ایک عجیب سا خوف ابھر کر سامنے آیا اور باخٰتیار اللہ سے عرض کیا کہ اے اللہ ان سب کو ریمورٹ والی گاڑی دلا دے