کراچی (جیوڈیسک) بیٹا، اور جیتے رہئے ،تھا جس کا تکیہ کلام، اُس نے مٹی کو مستقل تکیہ بنالیا،آپ کی ، ہماری اور سب کی “بجیا” کراچی میں سپرد خاک،جنازے میں علمی، ادبی، فنی ، سیاسی اور سماجی شخصیات کی شرکت۔
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر، وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں، صرف آٹھ ماہ میں، آسمانِ ادب کے آٹھ تابندہ ستارے بجھ گئے، پہلے عبداللہ حسین، پھر جمیل الدین عالی، پھر تلے اوپر کمال احمد رضوی، اسلم اظہر، نسرین انجم بھٹی، ندا فاضلی،انتظار حسین، اور اب فاطمہ ثریا بجیا۔
صرف چودہ برس کی عمر میں ادب اور فن کی سنہری شاہراہ پر قدم دھرنے والی یہ “بڑی عورت” ڈراما نویسی کی سلطنت کی ملکہ تھی، طویل علالت کے بعد گزشتہ رات انتقال ہوا اور آج آخری سفر پر محبت اور ادب کرنے والوں کاہجوم تھا جو ہر قدم پربجیا کو یاد کرتا اور آنسو بہاتا رہا۔
عالمی شہر یت اور صدارتی ایورڈ پانے والی بجیا کو کسی نے اپنا رول ماڈل کہا تو کسی کو اُن کی وفات ایک ایسا خلا محسوس ہوا، جو کبھی پر نہ ہوگا۔فاطمہ ثریا بجیا کو کراچی کے گزری قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا تاہم اپنے فن کی طرح ہمیشہ لوگوں کے دِلوں میں زندہ رہیں گی۔