تحریر : نور بخاری/ محمد عارف معروف مصنفہ اور ادیبہ بانو قدسیہ کچھ روز علیل رہنے کے بعد 4 فروری 2017 ءکو لاہور میں انتقال کر گئیں۔ ان کے انتقال کی خبر دنیا ادب میں بجلی بن کر گری ہے۔ ایسے محسوس ہوا ہے کہ جیسے بہت بڑا ادب کا باب بند ہو گیا۔ ادب کی دنیا میں بانو قدسیہ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بانو قدسیہ کا شمار ملک کی قد آور شخصیات میں ہوتا تھا، ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا اسے پر کرنا ناممکن ہے۔ بانو قدسیہ پاکستان کا اہم سرمایہ تھیں، ان کی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں گی۔
تعارف: معروف مصنفہ اور ادیبہ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 ءکو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں۔ عمر ابھی ساڑھے تین سال تھی۔ جب ان کے والد بدالزمان کا انتقام ہوگیا۔ پھر بانو قدسیہ کی والدہ ذاکرہ بیگم نے ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔
ابتدائی تعلیم: بانو قدسیہ آپا نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ اصل میں ان کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ سو پانچویں جماعت سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ انہوں نے اپنی کلاس کے لیے اپنی ٹیچرز کے اصرار پر اپنا پہلا ڈرامہ لکھا۔ جس نے پورے اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ ڈرامہ تیس منٹ کے دورانیے پر مشتمل کرتے ہوئے لکھنا پانچویں کلاس کی بچی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ جو کہ کامیابی پر ہمکنار ہوا۔ اور پہلے انعام کا حقدار ٹھرا۔ یہ دھرم سالے میں گورنمنٹ کا سکول تھا۔ جہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بانو قدسیہ صاحبہ جاتی تھیں۔اس حوصلہ افزائی کے بعد انہوں نے باقائدہ لکھنا شروع کر دیا۔
تعلیمی اور قلمی سفر: بانو قدسیہ آپانے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا، جس وقت انھوں نے بی اے کا امتحان دیا اس وقت 47 کے فسادات کی آگ پھیل چکی تھی، گورداس پور اور شاہ عالمی اس آگ کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ ایسے میں بانو قدسیہ آپا بی اے کے پیپرز دینے کے لیے ایف سی کالج جاتی رہیں کیونکہ فسادات کی وجہ سے ان کا کنیئرڈ کالج نہ کھل سکا تھا۔ بی اے کا امتحان کسی طرح دے دیا۔
بہت ہی برے حالات تھے۔ مسلمانوں کے لیے ایک طرح سے آزمائش تھی۔ کافی مشکل وقت تھا فسادات پھیلتے چلے گئے، بانو قدسیہ اپنے خاندان کے ہمراہ پتن پہنچیں۔ وہاں سے ایک قافلے کے ساتھ پاکستان کا سفر شروع کیا۔ بانو قدسیہ آپا کا آدھا قافلہ راستے میں ہی بچھڑ گیا تھا اور آدھا قتل ہوگیا تھا، تین ٹرک پاکستان پہنچے، ایک میں بانو قدسیہ، ان کی والدہ اور بھائی بچ گئے تھے، دوسرے رشتے دار قتل کردیے گئے تھے۔ بہت ہی مشکلات کاسفر تھا۔ جو کہ اللہ کے کرم سے طے ہو ہی گیا اور پھر پاکستان پہنچ کر جب انہیں بی اے کے رزلٹ کا پتا چلا جس میں انھیں کامیابی ملی تھی۔ 1949ءمیں انھوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے ا ±ردو میں داخلہ لیا۔ یہاں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے، دونوں کو پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق تھا۔
ایم اے ا ±ردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ”داماندگی شوق“ 1950ءمیں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ”ادبِ لطیف“ میں شائع ہوا۔ 1956ءمیں بانو قدسیہ آپا کی شادی معروف ڈرامہ نگار اشفاق احمد سے ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد ہی دونوں نے مل کر ایک رسالہ ”داستان گو“ کا اجراءکیا، تمام کام خود کرتے تھے۔ چار سال تک کے عرصے کے بعد ”داستان گو“ کا سلسلہ بند کردیا۔
Bano Qudsia-Ashfaq Ahmed
عملی کام: 3 جلد ہی دونوں نے ریڈیوں کے لیے لکھنا شروع کر دیا اور جب پاکستان میں ٹیلویڑن کا اجرا ہوا تو پی ٹی وی کے پہلے ایم ڈی اسلم اظہر نے اشفاق احمد صاحب کو ٹی وی کا سب سے پہلا پروگرام پیش کرنے کے لیے کہا۔ اشفاق احمد ٹی وی کے پہلے اناﺅنسر تھے۔ سب سے پہلا ڈراما ”تقریب امتحان“ ان ہی کا ہوا تھا۔ بانو قدسیہ آپا کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کے بہترین استاد اور رہنما تھے۔ انہوں نے ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی اور آگے بڑھنے پر بہت معاون رہے۔
بانوقدسیہ کے ناول، کہانیوں کے مجموعے اور دیگر کتابیں: بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے، راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب قابل ذکر ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں 2003ءمیں ”ستارہ امتیاز“ اور 2010 میں ”ہلالِ امتیاز“ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے اور اب انھیں کمال فن ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔
٭ راجہ گدھ ٭ شہر بے مثال ٭ توجہ کا طالب٭ چہار چمن ٭ سدھراں ٭ آسے پاسے٭ دوسرا قدم ٭ آدھی بات ٭ دست بستہ٭ حوا کے نام ٭ سورج مکھی ٭ پیا نام کا دیا٭ آتش زیر پا ٭ امر بیل ٭ بازگشت٭ مردابریشم ٭ سامان وجود ٭ ایک دن٭ پروا ٭ موم کی گلیاں ٭ لگن اپنی اپنی٭ تماثیل ٭ فٹ پاتھ کی گھاس ٭ دوسرا دروازہ٭ ناقابل ذکر ٭ کچھ اور نہیں اور حاصل گھاٹ شامل ہیں۔بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی، و ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981ءمیں شائع ہونے والا ناول ”راجہ گدھ“ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول درحقیقت ہمارے معاشرے کے مسائل کا ایک ایسا تجزیہ ہے جو اسلامی روایت کے عین مطابق ہے اور وہ لوگ جو زندگی، موت اور دیوانگی کے حوالے سے تشکیلی مراحل میں گزر رہے ہیں، بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ، ان کے لیے یہ ایک گراں قدر حیثیت کا حامل ناول ہے۔
یہ ناول مڈل کلاس کی جواں نسل کے لیے محض اسی لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ناول کے بنیادی کردار یونیورسٹی کی کلاس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کشش کا باعث ہے کہ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو اس انتشار کا سبب اور مراجعت کو ”طریقہ نجات“ بتایا ہے۔ راجہ گدھ کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اچھا ناول ہے۔ راجہ گدھ کے 14 سے زائد ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔
لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ صاحبہ کے الفاظ:٭بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ ” میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا کسی پھول کو معلوم ہوا ہے کہ وہ کھلتا کیوں ہے؟ کسی پھل کو پتہ چلا ہے کہ وہ کیوں پکتا ہے؟ اور کیوں اس میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے؟ تخلیقی کاموں کا جس بندے کو علم ہو گیا کہ وہ کیوں لکھتا ہے تو میرے خیال میں وہ مشقت سے لکھتا ہے اور اس کا نام ہسٹری میں آ نہیں سکتا۔کہانی وارد ہو جاتی ہے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے آتی ہے۔ وہ چلتے چلتے وارد ہو جاتی ہے۔وہ خود ہی پکڑی جاتی ہے۔ خود ہی ذہن اسے پکڑ لیتا ہے اور خود ہی اس پر کام کرنے لگ جاتا ہے۔ جس طرح غزل نازل ہوتی ہے، آمد سے بھی زیادہ، میں کہتی ہوں نازل ہوتی ہے، تو پتہ تو نہیں ہوتا کہ کیسے شعر اتریں گے اور کیسے بن جائیں گے۔ بن جاتی ہے تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پوری غزل ہی ہو گئی۔”
مختصر اقتباسات: بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے ایسی ملتی ہے گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔ (اقتباس : توبہ شکن) میں نے انسان کو شہر بساتے اور حق مانگتے دیکھا ہے۔۔۔ جان لو صاحبو! جب کبھی سڑک بنتی ہے اس کے دائیں بائیں کا حق ہوتا ہے، جو مکان شہروں میں بنتے ہیں باپ کے مرتے ہی وارثوں کا حق بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ چلو اور چل کر دیکھو جب سے انسان نے جنگل چھوڑا ہے اس نے کتنے حق ایجاد کر لیے ہیں۔ رعایا اپنا حق مانگتی ہے، حکومت کو اپنے حقوق پیارے ہیں، شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے حق مانگتی ہے، استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد اپنا حق مانگتا ہے۔اصلی حق کا تصور اب انسان کے پاس نہیں رہا، کچھ مانگنا ہے تو اصلی حق مانگو۔۔۔ جب محبت ملے گی تو پھر سب حق خوشی سے ادا ہونگے، محبت کے بغیر ہر حق ایسے ملے گا جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے۔( اقتباس: راجہ گدھ ) محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ہے۔۔۔۔ ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ہے۔۔۔۔( اقتباس: راجہ گدھ )
تعلق تو چھتری ہے۔۔۔۔ ہر ذہنی ، جسمانی ، جذباتی غم کے آگے اندھا شیشہ بن کر ڈھال کا کام دیتی ہے۔۔۔۔(اقتباس:حاصل گھاٹ) ایک انسان دوسرے انسان کی محبت کو کبھی نہیں جیت سکتا۔ کچھ عرصہ کے لیے شرابور ضرور ہو سکتا ہے مگر مکمل طور پر اس بارش میں نہیں رہ سکتا۔ بانو قدسیہ کے فیس پر فین کی جانب سے کچھ تاثرات شبینہ ضمیر کافی اچھی سوچ ہوتی ہے ان کی تحریر میں، مجھے بہت پسند آتی ہیں۔ حقیقت ہوتی ہے جو میں سوچتی ہوں۔ ان کی تحریر سے ان کا تجربہ نظر آتا ہے۔ وہ صرف عورتوں کی نہیں مردوں کی سوچ کو بھی خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں۔ نمرہ فرقان بانو قدسیہ صاحبہ کے بارے میں بس اتنا کہوں گی کہ یہ اردو ادب کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے بانو قدسیہ جیسے نایاب ہیرے سے اسے نوازا ہے۔ ان کے اک انٹرویو میں ان کے لکھنے کے آغاز اور ان کی محنت کے بارے میں پڑھا تھا اور بہت متاثر ہوئی تھی۔۔ان کی بہت سی تحریریں پڑھی۔۔ راجہ گدھ جیسی شاہکار تحریر پھر کبھی نظر سے نہ گزری۔ آپ کی اردو ادب کے لیے خدمات قابل قدر ہیں۔
صلیحہ عزیز ; بانو آپا ہمارے لک کی ایک خاموش سایہ دار درخت کی ماند ہیں جن کی خوشبو سے ہم فیضیاب ہور رہے ہیں. اللہ ان کو صحتیاب رکھے. آمین
مایام اعوانرائٹر کہلوانے کے لیے اپنی تحریروں کو لوگوں کے دلوں میں اتارنا ضروری ہے اور یہ فن بانو قدسیہ آپا سے بہتر کوئی نہیں جانتا..ہماری نوجوان نسل کو ان کی تحریریں پڑھنے کی اشد ضرورت ہے..میری دعا ہے کہ ادب کے آسمان کا یہ چاند ہمیشہ سلامت رہے..آمین
شمائلہ زاہد بانو قدسیہ علم او ادب کا چھپا ہوا خزانہ تھیں لیکن انہو نے اس قمیتی علم کو لوگو تک آسانی سے منتقل کیا بے شک انکی ہر تحریر سبق آموز ہوتی ہے اللّ? انکو صحت او تندرستی عطا فرما ئے ،آمین
ارم فاطمہ:بانو قدسیہ آپا دنیائے ادب کا ایک روشن ستارہ ہیں. ان کی ادبی خدمات بھلانا ناممکن ہے. ان کا شہرہ آفاق ناول “راجہ گدھ” انسانی نفسیات پر بہت گہرا مطالعہ پیش کرتا ہے. اللہ ان کی ادبی خدمات سے سب کو مستفید ہونے کی توفیق عطا فر مائیں آمین
Bano Qudsia Novels
مونا شاہ قریشی:بانو قدسیہ ادبی دنیا کا وہ رخشندہ تر ستارہ ھیں جنکی آب و تاب سے ادب کے دیجور حصے روشن ھیں..بوجہ انداز تحریر دہر میں انکی پہچان سب سے اعلی اور مستثنی ھے..انکی ہر تحریر سے انکی جودت واضح ہوتی ھے .اللہ عزوجل انکے قلم کی قوی برقرار رکھے، آمین
فری ناز خان: بانو قدسیہ آپا ہمارے اردو ادب کا ایک روشن ج?لملاتا ہوا درخشاں ستارہ ہیں. آپ پاکستانی ادب کی ایک ممتاز ترین شخصیت ہیں. آپ کے افسانوں میں ذیادہ تر رشتوں کی نزاکت اور حقیقت پسندی کے عنصر نمایاں پائے جاتے ہیں.آپ معاشرتی مسائل کی صحیح معنوں میں عکاسی اور ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں. آپ نے افسانہ ،ناول ،ڈرامہ الغرض کوئی صنف ایسی نہیں جہاں کمال جوہر کا مظاہرہ نہ کیا ہو….
خنیس الرحمن: بانو قدسیہ آپا علم و ادب کا خزانہ تھیں۔اپنے قلم سے لوگوں کی تربیت کرتی رہیں ہیں.
ثناءواجد: اردو زبان سے دلچسپی رکھنے والا اور اردو ادب کو پڑھنے والا کون ہوگا جو بانو قدسیہ کے نام سے واقف نہ ہو.اپنی زندگی کی پانچ دہائیاں انہوں نے اردو ادب کے نام کی ہیں. بانو قدسیہ اردو و پنجابی ادب کا ایساچمکتا ستارہ ہے جو نئے لکھنے والوں کے لئے روشنی دکھانے کا سبب بن سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سی ایس ایس کے سلیبس میں ان کا ناول راجہ گدھ شامل ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک انسٹیٹیوٹ کی حیثیت رکھتی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔