کرونا وائرس وبائی مرض ہے جس نے پوری دنیا پر اپنا خوف طاری کردیا ہے، اس وقت تقریبا دنیا کے تمام ممالک ہی اس وبا کی لپیٹ میں ہیں ، کرونا سے سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئیں ، چین، امریکہ، ایران، سمیت پاکستان میں بھی اس وائر س نے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس میں کرونا وائرس سے اموات نہ ہوئی ہوں ، کرونا وائرس کے حوالے سے مختلف باتیں گردش کر رہی ہیں پاکستان میں لوگ اس کو قدرتی آفت ، قدرتی عذاب،ہمارے گناہوں کی سزا، یا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی نتیجے میں قدرت کی پکڑ کہہ رہے ہیں ، اب اگر ان باتوں کو گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ باتیں غلط بھی نہیں ہیں ، پوری دنیا میں صرف مسلمانوں پر ہی ظلم ہورہا ہے اور صرف مسلمانوں کا ہی خون بہایا جارہا ہے۔
میں اس سے قبل بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں لکھ چکا ہوں ، کرونا وائرس دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پھیل رہا ہے اور ہر دوسرے دن اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ قابل تشویش ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں کرونا کی روک تھام کے لیئے اقدامات کر رہی ہیں ، لیکن اگر دیکھا جائے تو نہ ہی قوم نے اس وبائی مرض کو سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی حکومتوں نے، اگر قوم کی بات کی جائے تو یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ قوم میں تعلیم اور شعور کی کمی اس کو سنجید ہ نہ لینے کی وجہ کہی جاسکتی ہے لیکن حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا اور باشعور کہتے ہیں ان کو تو کرونا وائرس کے بارے میں نہ صرف اطلاعات تھیں بلکہ دیگر متاثرہ ممالک بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان کی حکومت سے رابطہ میں تھے اور اپنے اوپر بیتنے والے سارے معاملات سے مکمل آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ احتیاط برتنے کا مشورہ بھی دے رہے تھے، اس کے باوجود حکومتی غیر سنجیدگی سمجھ سے بالاتر ہے۔
فروری کی چھیبس تاریخ کو جب پہلا کیس پاکستان میں ہوا ( شاید اس سے بھی قبل ایسے کیسز ہوں اور حکومت کو پتہ ہی نہ چلاہو) تو حکومت پاکستان کو اس وائرس کی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیے تھے ، جو کہ نہ ہوسکے، اگر بروقت اقدامات کیے جاتے اور ملک کے تمام ایئر پورٹس جہاں پر انٹرنیشنل فلاءٹس آتی ہیں ان پر فوری طور پر اسکریننگ کا سسٹم لگایا جاتا ، ہر مسافر کو مکمل طور پر چیک کیاجاتا ، بارڈرز میں سیکورٹی بڑھائی جاتی اسکریننگ کے عمل کو بھرپور انداز میں شروع کیا جاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے، میڈیا، حکومتی اور دیگر ذراءع کی اطلاعات کے مطابق سند ھ میں کرونا کے مریضو ں کی تعداد دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے، جو کہ روزانہ کی بنیادوں پر بڑہتی جارہی ہے، سندھ حکومت نے لاک ڈاءون کردیا ہے جو کہ موجود حالات کا تقاضا ہے اور امید ہے کہ اس لاک ڈاءون کے اچھے نتاءج بھی آئیں گے۔
سندھ کے بعد پنجاب اور اب تقریبا پورا ملک ہی لاک ڈاءون والے آپشن کی طرف چلا گیا ہے، وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں اپنی اپنی جگہ بھرپور کوششیں کرر ہی ہیں اور افواج پاکستان بھی مشکل کی اس گھڑ ی میں حکومتوں کی مدد کررہی ہے اور اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے، اس سے قبل بھی بہت ساری قدرتی آفات آتی رہی ہیں جیسا کہ سیلاب ، زلزلے، خشک سالی اور ان میں بھی نہ جانے کتنے انسان لقمہ اجل بنے، اب ان تمام قدرتی آفات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کبھی ہم نے انسان ہونے کے ناطے انسانیت کے بارے میں سوچا ہے، کیا کبھی ہم نے بحیثیت مسلمان اپنی مذہبی ، شرعی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھایا،اپنے مذہبی فراءض کو انجام دیا، صرف دنیاوی خواہشات کو پورے کرنے اور دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ اس مصیبت میں بھی ہم لوگ ذخیرہ اندوزی، لوٹ مار، فریب اور جھوٹ بازاری میں مشغول ہیں ،جب ہمارے اعمال ایسے ہونگے تو قدرتی آفات نہیں آئیں گی تو اور کیا ہوگا، قدرتی آفات رب کریم کی ناراضگی کیوجہ سے ہوتی ہیں ، بن موسم بارش تب ہی ہوتی ہے جب رب ناراض ہوتا ہے، ابھی بھی وقت ہے اجتماعی توبہ کرنی چاہیے اور کبیر ہ و صغیرہ گناہوں پر گڑ گڑا کر معافی مانگنی چاہیے ، کرونا وائرس نے ہر کسی کو گھروں میں قید تو ویسے بھی کروا ہی دیا ہے، اس تنہائی میں ہر انسان اپنا اپنا محاسبہ کرے اور رب کریم سے معافی مانگے ، اسوقت مساجد میں جانے سے روکا جارہا ہے۔
کعبہ شریف میں طواف روک دیا گیا ہے، مسجد نبو ی میں بھی انتظامیہ نے کرونا وائرس کے پھیلاءو کو روکنے کے لیئے داخلہ بند کردیا ہے، تبلیغی جماعتوں کے اجتماعات جن میں دین کی تعلیم دی جاتی تھی موجودہ صورتحال کے پیش نظران پر بھی پابندی لگادی گئی ہے، علماء نماز جمعہ کے خطبے کو مختصر کرنے کی درخواستیں کر رہے ہیں ، تما م سرکاری و غیر سرکاری دفاتر بند کردئے گئے ہیں ، درسگاہیں ، فیکٹریاں ، شاپنگ سینٹرز، مزارات غرضیکہ نظام زندگی کو روک دیاگیا ہے، یوں کہیں کہ دنیاوی تمام در بند کر دیئے گئے ہیں لیکن ایک دروازہ ابھی بھی کھلا ہے جو صرف موت کے بعدہی بند ہوتا ہے اور وہ دروازہ ہے تو بہ کا دروازہ، استغفار اور گناہوں سے معافی مانگنے کے لیئے ابھی بھی وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے ، بے شک اس پوری کائنات کا مالک بہت رحم کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے ۔ ختم شد