تحریر : انجینئر افتخار چودھری پہلے تو کہوں گا ماشاء اللہ پھر بڑے گی بات آگے۔عبدالستار خان جسے ہم نظر حجازی کے نام سے جانتے ہیں اردو نیوز میں لکھا کرتے تھے ان دنوں جدہ میں اردو میگزین کی سٹی رپورٹنگ میرے پاس تھی۔نظر حجازی آج کل مذہبی سکالر کی حیثیت سے ٹونے ٹوٹکوں کی بات کرتے ہیں ہزاروںکی تعداد میں لوگ انہیں سنتے ہیں اس روز کہہ رہے تھے نظر تو نیٹ پر لگی تصویر کو بھی لگ جاتی ہے کسی بندے کی تیز رفتاری کو بھی لگ سکتی ہے تعریف پر بندہ نظر بد کا شکار ہو سکتا ہے۔اسی لئے پہلے لکھا ماشاء اللہ۔ ضیاء شاہد کی تیز رفتاریاں دیکھیں کبھی جہلم، اسلام آباد کبھی ملتان اور کبھی لاہور میں دھڑا دھڑ تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں۔جہاں ظلم وہاں خبریں کا نعرہ لگاتے آگے بڑھتے جاتے ہیں ہم ہیں ایک دن مصروف ہو جائیں تو دوسرے روز چھٹی مارتے ہیں۔ضیاء شاہد کو اللہ تعالی عمر خضر دے ان دنوں پاکستان کے لئے جو کارہائے نممایاں انجام دے رہے ہیں اللہ پاک ان کا اجر ضرور دے گا۔
نیا سال مبارک ہم پاکستانی جس نئے سال میں داخل ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے جو چیلینجز ہیں ان کا ذکر یکم جنوی کے اخبار میں چیف ایڈیٹر خبریں کر چکے ہیں۔میں نے آج ایک ستائشی کالم لکھا ہے مجھے علم ہے کہ یہ کالم شائد اس شخصیت کو پسند نہ آئے جس کے بارے میں لکھا ہے۔جس طرح ایڈیٹر کا بیانیہ ہوتا ہے کہ وہ لکھاری کی رائے سے ضروری نہیں متفق ہو لہذہ میں نے بھی لکھ دیا۔آبی دہشت گردی کی اصطلاح انہی کی ہے۔ہم تو ستلج بیاس کے پانیوں کو ترس رہے تھے ہمیں بتایا گیا کہ اب ہمارا ازلی دشمن ہمیں افغانستان میں گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہمارے پانی کسی بھی وقت ہمارے نہیں رہیں گے۔کالا باغ بنانے اب تو سبز باغ ہو چکا ہے اسے کوئی مائی کا لعل اب نہیں بنا سکتا جو پانی ہم دیکھ رہے ہیں وہ کھلے سمندر میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے جا گرتا میٹھا پیارا پانی ہمارا نہیں رہے گا اس کے تصور سے لئوں لئوں کانپ اٹھتا ہے کھارے سمندری پانی پر بھی نظریں لگی ہوئی ہیں۔معاف کیجئے ہمارے پرکھوں کے سارے کام اچھے نہ تھے کچھ ایسی غلطیاں ہوئیں جس کا ہمیں خمیازہ بھگنا ہو گا۔چودھری رحمت علی کا اختلاف کیا تھا یہی کہ وہ چاہتے تھے کہ ہمارے دریائوں کے سوتے ہمارے پاس ہوں پورا کشمیر لیا جائے۔انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کو الگ اسلامی مملکت کی شکل میں معرض وجود میں آنا چاہئے عثمانستان کی بات ہوئی پورے کشمیر کا مطالبہ کیا۔حضور سب کچھ ٹھیک نہیں ہو ا تقسیم کے وقت ایک شخص تھا وزیر خارجہ اور نام تھا اس کا سر ظفر اللہ خان چودھری۔ڈسکے کا ساہی جاٹ تھا اور شر سے تھا قادیانی اس نے ریڈ کلف سے مل کر پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپا۔یاد رہے یہ انگریز کی طرف سے جبری تحفہ تھا۔ایسا تحفہ جس نے سرکاری خرچ پر قادیانیت کو پھیلایا۔گورداس پور کی آخری رات پر فلم بن سکتی ہے۔بہت کچھ لکھا گیا یہاں لوگ پاکستان میں شمولیت پر جشن منا رہے تھے ادھر غلام احمد قادیانی کا چیلہ اسے بھارت کو دینے میں مصروف رہا۔ہم آج تک اس کی کھٹی کھا رہے ہیں کشمیری لاکھ کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اس سے زیادہ جیلوں میں اور سڑکوں پر بھارتی جارحیت کا شکار ہو گئے۔
خیر سے سندھ طاس معاہدہ ہوا جس کی تفتیش کسی نے نہیں کی اور ایک مرد جری اٹھا کمر اس کے خمیدہ ہے لیکن جذبے ہمالہ جیسے۔مجھے فخر ہے کہ ربع صدی کے قریب ان کے ساتھ ہوں یہ انہی کا کمال ہے کہ ایک بوجھ کو گھسیٹ رہے ہیں مگر اس پارس پتھر کی خوبصورتی دیکھئے کہ جن کے نوٹوں میں ڈیزل کی بو تھی وہ بھی کالم نویس بن گئے (میں آٹو انجینئر ہوں)۔ ضیاء شاہد نے ایک بھاری پتھر کو ہاتھ ڈالا ہے اور مجھے علم اس کا بالا نکال کر ہی چھوڑیں گے۔اللہ عمر دراز دے آمین بعض لوگ ان مواقع پر کہتے ہیں اللہ میری عمر بھی ان کو دے۔کیوں جی اللہ کے خزانوں میں کمی ہے وہ انہیں بھی دے مجھے بھی اور اس کالم کے پڑھنے والوں کو بھی۔آمین تو کہہ دیں۔
پنجاب پانچ دریائوں کی دھرتی تھی ستلج ،بیاس اس سے چھین لئے گئے ہیں۔ہمیں تو اب پتہ چلا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے بھارت سارا پانی بند نہیں کر سکتا۔اب سوال یہ پید اہو گیا ہے کہ ا س بند پانی کی بات کس نے کرنی ہے۔نمائیندہ خبریں کی حیثت سے میں نے صدر پاکستان جنرل مشرف سے جدہ میں یہی سوال کیا کہ حضور کالا باغ کون بنائے گا۔وہ پینتالیس منٹ بولتے رہے لب لباب یہ تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ان سے کوئی پوچھے تختے الٹ سکتے ہیں لیکن پاکستان دشمنوں کو گا نہیں دی جا سکتی۔پاکستان کی ساری پارٹیاں ہزاروں سبز باغ تو دکھا سکتی ہیں لیکن ایک کالا باغ نہیں بنا سکتیں۔
ضیاء شاہدیہ مرد درویش سب سے ملا ہے وزیر اعظم سے بھی اور چیف جسٹس سے بھی۔لگتا ہے ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات اور ہیں۔مادہ کی تین قسمیں ہیں ٹھوس مائع گیس۔ہیں ناں؟جی بلکل ہیں میرے خیال میں مائع رکھ لی ضیاء شاہد نے اپنے حصے میں ٹھوس نوازشریف کے پاس اور گیس جناب شاہد خاقان عباسی نے۔موصوف ایل این جی کے کیس میں سر تا پاء پھنسے ہوئے ہیں۔انہیں کسی مائع کی فکر نہیں ہے انہیں کیا کہ ستلج اور بیاس کی دھرتی کے لوگ مر رہے ہیں۔دوستو!اشرافیہ ہے کیا؟وہ لوگ جو سارے وسائل کو اپنے لئے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔میں اندرون سندھ گیا ہوں سرائیکی بیلٹ دیکھا ہے پوٹھوہار کا رہائیشی ہوں گلگت بلتستان پھرا ہوں کشمیر دیکھا ہے۔بلوچستان گھوما نہیں دیکھا ضرور ہے ہر جگہ تھوڑے لوگ بوہتے لوگوں کی گردن پر ٹانگ رکھے ہوئے ہیں۔گلگت بلتستان میں گزارے آٹھ دن مجھے سبق دے گئے کہ یہاں کے لوگوں کا رابطہ اسلام آباد سے کمزور ہے یہاں کچھ ایسی قوتیں ہیں جو پاکستان سے دوری کو ہوا دے رہی ہیں کہ اسلام آباد ان کے حسے کو کھا رہا ہے۔ہم سے مراد وہ اشرافیہ ہے جو مشرقی پاکستان کو بھی بوجھ سمجھتی رہی۔
آج ایک چینیل پر بتایا جا رہا تھا کہ کوٹلی ستیاں کا بندہ بجلی کے بل ٹھیک کرانے بھارہ کہو آتا ہے کمال ہے یہی کچھ صادق آباد رحیم یار خان کے رہائیشی کو مسئلہ در پیش ہے اس کے معاملات لاہور سے جڑے ہیں ہزارہ چیخ رہا ہے کہ پشاور کھا گیا ملتان شور کرتا ہے کہ لاہور لے گیا میر پور متھیلو گہوٹکی پنو عاقل کا مسئلہ بھی یہی ہے۔اس کا واحد حل ہے ضلعی حکومتوں کو طاقت ور کرنا انہیں صوبوں کا نام بے شک نہ دیں مگر سب کچھ اس ضلعے میں ہو۔بنتے بگڑتے اس ماحول میں قومی مسائل اپنی جگہ ہیں۔پانی کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے ہم نے سنا ہے کہ آئیندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔میں کہہ رہا ہوں کہ ہو رہی ہیں اسلام باد کے لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔یو سی چک لالہ کے باسی پیاسے ہیں واسا صرف نوازیوں کو نواز رہی ہے۔حضور ہم کسی پتو کی،نواب شاہ سکھر،خضدار،زوب،مری گھوڑا گلی کی کیا بات کریں۔ میں اس ببر شیر کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے ہم جیسے لوگوں کا بوجھ بھی اپنی کمر پر اٹھا رکھا ہے۔پتہ نہیں پاکستان کی غموں والی شام کب ختم ہو گی کبھی ترستی سوکھی دھرتی کو پانی ملے گا؟
پچھلی بار خبریں کی سلور جوبلی پر مجھے بلایا تھا اس بار قلم چہرے کی تقریب گورنر ہائوس میں ہوئی مجھے نہیں بلایا۔اس لسٹ سے مجھے کیوں نکالا؟پتہ نہیں میرا انصافیا ہونا ہے یہ قلم چہرے والوں کو بلایا تھا قلم بوتھے والوں کو نہیں۔رجوانہ صاحب گورنر پنجاب ہیں قلم چہرے کی تقریب کی جو تصویر کشی برادر توصیف احمد خان نے کی اس نے مجھے ان کی توصیف کرنے پر مجبور کیا ہے۔حکمران جب کتاب والوں کی قدر کریں تو سمجھئے کہ معاشرے میں ابھی سچائی صفائی ستھرائی زندہ ہے۔اور خاص طور پر جہاں ضیاء شاہد ہو وہاں روشنی کی گواہی موجود ہوتی ہے۔قلندر نے بھی کوئی خوبصورت بات کی تھی جس میں پانی پانی کا ذکر تھا اور وہاں یہ بھی ذکر تھا کہ اغیار کے آگے جھکنے سے سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملتا۔ہمیں بچپن میں وہ مداری والا کھیل ابھی بھی یاد ہے جو ایک کیف سی بنا کر ایک لڑکے کو جھکا کر پانی نکالتا تھا دیکھنے والے ہنستے تھے شائد وہ کھیل ہمارے لیڈران نے بھی دیکھا ہوا ہے اسی لئے وہ جھک جاتے ہیں۔جھکنے سے پانی نہیں نکلے گا حکمرانو۔ضیاء شاہد کی سنو انڈیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو ۔بنیا لاتوں کا بھوت ہے ۔یہ جب بھی بات کرتا ہے چاہے موضوع کشمیر ہو یا کوئی اور یہ اپنی منواتا ہے۔اس نے ہمیں شرق غرب سے گھیر رکھا ہے۔ہمارے محفوظ بارڈر غیر محفوظ ہو گئے ہیں جنرل ایوب خان نے اپنی یاد داشت میں لکھا ہے کہ جب تقسیم ہو رہی تھی تو قبائیلوں نے ہمارے ایک سپاہی کو مار ڈالا ہم جوابی کاروائی کی تیاری کی تو جنرل ٹکر نے کہا یہ غلطی نہ کرناہمارے پنگے اپنے ہیں ۔اس وقت پاکستان کو بہت سے چیلینجز کا سامنا ہے ان میں پانی بھی ایک بڑا چیلینج ہے۔ہماری بد قسمتی ہے ہمارے کوئی تھنک ٹینک نہیں نہ سیاسی جماعتوں میں نہ حکومتی سطح پر این جی اوز ہیں جو ایک خاص مقصد کے لئے پاکستان کی داڑھی نوچنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ستلج بیاس کے ان کھوئے ہوئے پانیوں کی تلاش کے سفر میں ایک قافلہ نکلا ہے جس کے سالار ضیاء شاہد ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی آواز میں آواز ملائی جائے۔میں اپنی کمزور سی سنگی سے جی او شیرا کا للکرا مارتے ہوئے ضیاء شاہد کی حمائت کا اعلان کرتا ہوں۔گم شدہ دریائوں کی واپسی سے ایک تہذیب ابھرے گی۔حقیقت تو یہی ہے کہ دریا کنارے بسنے والے لوگ تر گئے۔پانی ایک نعمت ہے کڑوا ہو یا میٹھا کڑوے پانی کے کنارے بسنے والے لوگ جانتے ہیں کہ رزق کی فراوانی انہی کے شہر سے ہو کر گزرتی ہے۔کوئی وجہ نہیں کہ پانی آنے سے روہی کے بسنیک موڈھے پر کھیسی رکھے انجانی مسافتوں کی جانب نہ نکلیں ۔مجھے مدر انڈیا کا وہ سین کبھی نہیں بھولتا جب بوڑھی نرگس ایک ڈیم کا افتتاح کرتی ہے جس جو مہاجنوں کے ہاتھوں لٹے ہوئے بیٹے کو مار چکی ہوتی ہے اور جس کا خاوند گائوں چھوڑ چکا ہوتا ہے۔کوئی تو ہو جو تلاش کرے کہ دھرتی کے کتنے بیٹے اپنی جنم بھومیوں کو چھوڑ گئے ہیں صرف اس لئے کہ دھرتی بھانج ہے پانی کا قطرہ نہیں۔میں نے پردیس کے دکھ جھیلے ہیں مجھے پتہ ہے ایک ایک کمرے میں دس دس رہنے والوں کی زندگی کیسے گزرتی ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے حصے کی روٹی غاصب لے گئے ہیں وہ غاصب داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی۔بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمیں ہر سمت سے گھیر رہا ہے۔اس نے آبی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔اور ہم بھی اس کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے نکلے ہیں۔ضیاء شاہد صاحب اللہ آپ کی مدد کرے ہماری کمزور سی آواز آپ کے ساتھ ہے۔اللہ نظر بد سے بچائے۔