برکھادت بھارت کی ایک صحافی خاتون ہیں۔ 18دسمبر 1971ء کو نئی دہلی میں پیدا ہونے والی اس کالم کار خاتون کا تعلق بھارت کے چینل این ڈی ٹی وی سے ہے اور وہ اس کی گروپ ایڈیٹر ہیں۔ برکھادت بھارت کے اندر اور باہر کی دنیا میں کئی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔ برکھادت کو اصل شہرت 1999ء کی کارگل جنگ میں بھارتی فوج کے ساتھ اگلے مورچوں پر کھڑے ہو کر رپورٹنگ کرنے سے ملی تھی۔
11جولائی 2014ء کو برکھادت نے این ڈی ٹی وی کیلئے بھارت کے خصوصی دورے پر آئے امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ولیم جے برنز کا خصوصی انٹرویو کیا۔ ولیم برنز نے اس انٹرویو سے پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی تفصیلی ملاقات کی تھی۔ نریندر مودی وہ شخص ہے، کہ جس پر امریکہ نے گجرات میں 2002ء کے مسلم کش فسادات کے بعد یہ کہہ کر اپنے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی کہ مودی کا ان فسادات میں کردار جانبدارانہ تھا اور امریکہ چونکہ دنیا میں سب سے زیادہ ”عدل و انصاف” کا علمبردار ہے لہٰذا مودی امریکہ نہیں آ سکتا۔
لیکن نریندر مودی کے حالیہ انتخابات جیتنے سے بہت پہلے ہی امریکہ سے یہ پیغامات آنا شروع ہو گئے تھے کہ اگر مودی وزیراعظم بنا تو امریکہ اس کے ملک میں داخلے پر پابندی ختم کر دے گا۔ پھر جب مودی وزیراعظم بنا تو امریکہ نے فوری طور پر مبارکباد کے پیغامات بھیجے تو مودی بھی امریکہ کے سامنے ”پرنام” کرنے لگا۔ اب امریکہ بھارت کو افغانستان میں یہ کہہ کر بلا رہا ہے کہ اگر وہ یہاں آ جائے تو پاکستان دونوں اطراف سے اس کے گھیرے میں ہو گااور وہ افغان مجاہدین جو اتحادیوں کے انخلاء کے بعد مقبوضہ کشمیر یا بھارت کی جانب بڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں کو وہ وہیں جالے گا اور اس کا ملک بھی اس خطرے سے بچ جائے گا… اور خطرہ کیا ہے…؟
اس کا اظہار امریکہ نے جماعة الدعوة پر 25 جون 2014ء کو پابندیوں کا اعلان کر کے کیا۔ امریکہ کی جانب سے الزام یہ لگایا گیا کہ لشکر طیبہ نے ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ کر کے اسے تباہ کیا تھا۔ امریکہ کو پٹی بھارت نے ہی پڑھائی تھی کیونکہ یہ واویلا اس سے پہلے بھارت نے ہی کیا تھا۔ لشکر طیبہ نے گو اس وقت اس کی تردید کی تھی جسے بھارت کے بعد امریکہ کی جانب سے بھی قبول نہ کیا گیا اور امریکہ نے وہی فیصلہ سنا دیا جو بھارت نے تیار کیا تھا کہ امریکی اقدام کے بعد حافظ محمد سعید کی نقل و حرکت بند اور ان کی تنظیم پر سخت پابندی عائد کی جائے۔ حافظ محمد سعید نے جب کہا کہ ”وہ امریکی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور یہ کہ امریکی سب سے بڑے الو ہیں” تو امریکہ سے زیادہ بھارت کی بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔
اسی دوران میں حافظ محمد سعید کراچی پہنچے تو انہوں نے کہا کہ امریکہ کی پابندی کے اعلان کے بعد انہیں پاکستان کے عوام نے پہلے سے زیادہ محبت اور پذیرائی دی ہے لہٰذا امریکہ کو چاہئے کہ وہ گاہے گاہے ایسی پابندیاں عائد کرتا رہے۔ ان الفاظ نے امریکہ ہی نہیں بھارت کو بھی مزید کوئلوں پر لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ دونوں کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی اور بولنے کو الفاظ ملتے نہ تھے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ نے بھارت میں قدم رکھا تو بھارت سے خصوصی مشن کے تحت برکھادت اس کے سامنے پیش ہو گئی اور بطور صحافی نہیں بلکہ بطور بھارتی سفیر سوالات اور مطالبات شروع کر دیئے۔
ولیم جے برنر نے پہلے تو نریندر مودی کی تعریفوں کے پل باندھے … جیسا کہ امریکہ کی ہر چڑھتے سورج کو دیکھ کراسے سجدہ کرنے کی عادت ہے۔ گدھے کے نشان کو منتخب کرنے والے امریکی بھی اپنے کام کیلئے گدھے کو باپ بنا لیتے ہیں اور یہی کچھ امریکی وزیر خارجہ نے کیا۔ چند ادھر ادھر کے بے مقصد سوالات کے بعد برکھادت نے اپنا اصل موضوع شروع کیا اور بولی ”ہم کچھ پڑوس پر بھی نظر ڈالتے ہیں، پاکستان میں ”دہشت گرد” گروپ سرگرم ہیں جو بھارت ہی نہیں، امریکہ کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ جب آپ پاکستان گئے تھے تو میں نے یہ سنا، آپ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے۔ چند روز پہلے امریکہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ ہرات کا حملہ لشکر طیبہ نے کیا تھا۔ پھر کیا وجہ ہے۔
America
امریکہ پاکستان پر موثر دبائو ڈال کر حافظ سعید کی آزادانہ نقل و حرکت کو روک نہیں پا رہا اور پاکستان نے انہیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ اس پر امریکی نائب وزیر خارجہ نے سیدھا سیدھا کہا کہ It has been a genuine frustration for us. ”یہ ہمارے لئے حقیقی سردرد ی ہے۔ ہم پاکستان کو اپنے تحفظات و خیالات سے مسلسل آگاہ کر رہے ہیں”۔ کوئی دو مہینے پہلے جب میں پاکستان میں تھا تو میں نے اس وقت بھی کہا تھا۔ ممبئی کے خوفناک حملے جس میں 6امریکی بھی ہلاک ہوئے تھے، اس لئے ہم اس حوالے سے جاری مقدمے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے خواہشمند ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لشکر طیبہ جو صرف بھارت نہیں امریکہ بلکہ سب کیلئے دشمن ہے، کے خلاف سب کچھ کر سکیں۔
” آپ کا تو پاکستان پر بھی بہت زیادہ اثر اور کنٹرول ہے پھر بھی آپ کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟”برنر نے اس پرکہاکہ ہم کئی بار اثرورسوخ استعمال کر کے زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں اور ہم اس معاملے میں بھی مسلسل دبائو ڈالتے اور اثرورسوخ استعمال کرتے رہیں گے۔خاتون صحافی بولی کہ کیا آپ کو حافظ سعید کی آزاد نقل و حرکت پریشان نہیں کرتی اور وہ تو لشکر طیبہ کا مرکزی کردار ہیں؟امریکی وزیر خارجہ نے اس پر پھر جواب دیا کہ یہ ہمارے لئے شدید تشویش والا معاملہ ہے اور یہ معاملہ ہمیشہ پہلی ترجیح پر رہتا ہے اور ہم اس پر کام کرتے رہتے ہیں۔
خاتون صحافی کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو پھر بول اٹھی کہ ”حافظ سعید ہمارے لئے تشویش والا معاملہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان لشکر طیبہ جیسے گروپوں پر پابندی نہیں لگاتا اور پاکستان کی سکیورٹی اور آئی ایس آئی لشکر طیبہ جیسے اداروں کو ریاست کا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں”۔
خاتون کی لجاجت اور منتوں پر اتری حالت زار کو دیکھ کر امریکی عہدیدار بول اٹھا کہ میں پوری ایمانداری سے کہتا ہوں کہ ہم قیاس آرائی پر بات نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ امریکہ اس سب کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس پر دبائو بھی ڈال رہا ہے۔ یہ مسئلہ بھارت یا امریکہ کا نہیں بلکہ خود پاکستان کیلئے بھی ہے اور ایسے گروپ خود پاکستان کیلئے بھی ہر طرح سے خطرہ ہیں۔ اس لئے ہم کام کرتے رہیں گے۔
اس موقع پر برکھادت کی کافی مطمئن ہوچکی تھی کہ وہ حافظ محمد سعید کے خلاف امریکہ کو خوب ابھار چکی اور اسے جس کام پر لگایا گیا تھا وہ پورا ہو چکا ہے لیکن بھارت کو قرار نہیں اور اب وہ اپنا سارا غصہ اپنے ہی ایک معروف صحافی وید پرتاپ ویدک پر نکال رہے ہیں کہ اس نے دورئہ پاکستان کے موقع پر حافظ محمد سعید سے ملاقات کیوں کی تھی۔ یہ مسئلہ 14جولائی کو بھارتی ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اٹھایا گیا اور وہا ںاس قدر شور وہنگامہ ہوا کہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔پھر پرتاپ نے خوب وضاحت کر کے جان چھڑائی۔
بھارت اپنی جان بچانے کے لئے امریکہ کے پائوں پکڑتا ہے تو امریکہ اسی مقصد سے بھارت کے… اور دونوں کے بیچ معاملہ ایک ہے کہ کسی طرح حافظ محمد سعید کی نقل و حرکت کو بند کر دیا جائے اور کسی طرح انہیں اس درد سے قرار آ جائے جو انہیں کبھی سکون کا سانس نہیں لینے دیتا اور حافظ محمد سعید ان کے ہر بیان اور مطالبے پر امریکہ اور بھارت کے دنیا بھر اور مسلمانوں پر اندھے مظالم کے پول کھولتے ہیں۔ ان کی دہشت گردی کا پردہ چاک کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی دہشت گردی کے خلاف راہ عمل کی طرف آنے کی اپیل کرتے ہیں تو ان دونوں ایوانوں میں لرزہ بپا ہوتا ہے لیکن… سچ تو یہ ہے کہ… جس کا حامی ہو خدا اسے مٹاسکتا ہے کون۔