تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ڈاکٹر کا انکار سن کر مریض نے دھا ڑیں مار کر رونا شروع کر دیا بلکہ مریض اٹھا اور ڈاکٹر کے قدموں سے لپٹ گیا ‘ڈاکٹر صاحب میں انتہا ئی غریب ہوں میر ا کو ئی نہیں ہے میں کئی دنوں سے تڑپ رہا ہوں خدا کے لیے میری مدد کریں ‘پچھلے کئی دنوں سے میرا پیشاب بند ہے قطر ہ قطرہ آتا ہے میں مر ض الموت کا شکا ر ہو ں خدا کے لیے میرا علاج کر یں یا مجھے موت دے دیں میں اور تکلیف بر داشت نہیں کر سکتا ڈاکٹر فرعونی لہجے میں بو لا جب ہسپتا ل میں بیڈ ہی خا لی نہیں تو میں کیسے آپ کا علاج کروں ڈاکٹر مسلسل انکار اور مریض مسلسل منتیں تر لے ہا تھ جو ڑ رہا تھا مریض کی درد ناک حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی میں سفارشی پر چی کے ساتھ لا ہور کے مصروف گورنمنٹ ہسپتال میں آیا ہوا تھا۔
میرے مریض کی حالت اتنی درد نا ک نہیں تھی میں آگے بڑھا اور ڈاکٹر سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ میری سفارشی پر چی پر اس غریب کو دیکھ لیں ہم بعد میں آ جائیں گے میں یہ کہہ کر کمرے سے نکل آیا ‘با ہر آیا تو چاروں طرف ایم ایس صاحب اور حکمرانوں کے نما ئشی بینر جا بجا لگے نظر آئے ایم ایس صاحب نے حکمرانوں سے مل کر یہ کر دیا وہ کر دیا نما ئشی کلچر کی بکواسات دیکھ کر میں ہسپتا ل سے نکل کر روڈ پر آگیا وہاں پر بھی ہر کھمبے درخت عما رت پر حکمرانوں کے فلا حی تا ریخی کا رناموں کے اشتہار لٹک رہے تھے خاد م اعلیٰ مسیحا اعظم آپ جب ٹی وی یا اخبا رات میں دربا ری دانشوروں اور حکمرانوں کے چمچوں کے بیا نات دیکھتے ہیں تو لگتا ہے پو رے پا کستان میں سنہراانقلاب آچکا ہے ہم ترقی یا فتہ دور میں داخل ہو چکے ہیں عمران خان نواز شریف شہباز شریف زرداری کا تجزیہ کریں تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارا معا شرہ پو ری طرح نما ئش کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے نفسیا تی طور پر ہم نما ئشی کلچر کے غلا م ہو چکے میں آپ کسی بھی صوبے حکمرانوں یا لیڈروں کو دیکھ لیں وہ صرف انہی کاموں پر زور دیں گے جن سے اُن کی واہ واہ ہو زندہ با د کے نعرے گو نجیں آپ اِن کی نفسیات کو دیکھیں تو واضح ہو تا ہے کہ یہ ہر اُس منصوبے کو زیر التوا رکھتے ہیں جو دوررس ہو یا اُن کی فوری حکو مت کے لیے با عث رنجش نہ بنتا ہو جیسے ہی کسی حلقے میں الیکشن آجائے تو سرد خا نوں سے پرا نے منصوبوں کو نکال لا یا جا تا ہے۔
آپ حکمرانوں کی نفسیات کا پہلوملا حظہ فرما ئیں کہ چند لا کھ سے لیکراربوں روپے سے معرض وجود میں آنے والے منصوبوں کا افتتا ح یہ خو د کرنا چاہتے ہیں اور جب یہ اپنے حوا ری چمچوں کے ساتھ افتتا ح کر نے آتے ہیں تو اِن کی چال آنکھوں کی چمک اور گا لوں پر سرخی کے ڈورے دیکھنے والے ہو تے ہیں اور پھر جب یہ ہا تھ میں قینچی اٹھا کر فیتہ کا ٹ کر اپنے نام کی نصب شدہ تختی کا نقا ب اٹھا تے ہیں تا کا رکن اور چمچے کس طرح ڈھول کی تھا پ پر بھنگڑے اور ہاروں کے انبا ر صرف اور صرف نما ئشی کلچر اور افتتا ح کے بعد اِس طرح دیکھتے ہیں جیسے کو ئی نیا ملک فتح کیا ہو یا انسا نیت کی بہت بڑی خدمت کی ہو حکمرانوں کی خو ش فہمی کا لیول دیکھیں کسی عما رت کی پیشانی پر ان کا نام لکھا جا ئے تو سمجھتے ہیں کہ تاریخ میں امر ہو گئے ہیں۔
پو رے شہر کی سڑکوں عما رتوں پر ان کے نام کی لہراتے بینر اِن کو تسکین دیتے ہیں اِن کی فضو ل تقریروں کے دوران ابھرنے والے نعروں اور گو نجنے والی تا لیوں کو یہ حاصل زندگی اور شہرت دوام سمجھتے ہیں جبکہ یہ اِن کی طفلگی دیکھیں کہ اِن باتوں کا حقیقیت سے کو ئی بھی تعلق نہیں ہوتا یہ تو پا نی پر بننے والے بلبلے ہو تے ہیں جو چند لمحوں میں ہی ختم ہو جاتے ہیں اور یہ تا لیاں بر ف کی ٹکیاں ہو تی ہیں جو وقت کی دھو پ میں پگھل جا تی ہیں اورنعرے گردش لیل و نہار میں گھل جا تے ہیں اور تختیوں پر لکھے نام ریت کی لکیریں ہو تے ہیں جو ہوا کے جھو نکوں سے اڑ جا تے ہیں اگر یہ زند ہ باد کے نعرے یہ بھنگڑے قصیدے با جے تمغے جلسے تا ریخ کے اوراق میں معتبر ہو تے تو آج غلام محمد سکندر غلام اسحاق ایوب خان یحی خان شوکت عزیز مشر ف فراموش کے طا قچے اور عرب کے چوکھٹے میں سجے نظر نہ آتے آج ما ضی کا غبا ر انہیں گمنا می کی چادر میں نہ لپیٹ لیتا بلکہ تا ریخ آسمان پر یہ روشن ستا روں کی طرح چمک رہے ہو تے۔
اِن حکمرانوں کی نفسیات کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اپنے اردگر د انہی لوگوں کی بار ات اکٹھی کر تے ہیں جو اِن کی خو شامد زیا دہ سے زیا دہ اور احسن طریقے سے کر سکے اگر کبھی یہ نیوز کانفرنس کریں تو اپنے مخصوص اخبا ری دوستوں کو بلا تے ہیں اُن کو پہلے سے سوال بنا دئیے جا تے ہیں کہ ایسے سوال کئے جائیں جن سے حکمرانوں کے روشن کا رناموں پر روشنی پڑ سکے خو شامدیوں کے ٹو لے کے ٹولے اِن کے پاس ہیں جو اِس فن میںزیا دہ پر فارم کر تا ہے وہ بڑا صحا فی ہے حکمران نما ئشی لت میں اِس طرح ڈوبے ہیں کہ چھو ٹے سے چھو ٹا کام بھی کر نا ہو تو اِس کے لیے نما ئش اور تشہیر کا پہلو نکال لیتے ہیں نما ئشی کلچر نے ہما رے معا شرے کو بھی چاٹ لیا ہے ہم اپنے مرنے والوں کی قل خو انی بھی اِس شان سے کر تے ہیں کہ لوگ داد و تحسین کے نعرے لگا تے رخصت ہو تے ہیں ہما را معاشرہ اِس حد تک با نجھ ہو چکا ہے کہ ہم کو ئی بھی مو قع ہا تھ سے نہیں جا نے دیتے اگر کو ئی بیما ر ہے تو پرائیوٹ مہنگے ہسپتا ل سے علا ج کرا تے ہیں اور پھر اُس کا اشتہار لگا تے پھرتے ہیں کہ فلاں پرائیوٹ ہسپتا ل سے اپریشن کر ایا ہے فلاں مہنگے ڈاکٹر سے میں اپنا چیک اپ کراتا ہوں اور تو اور نما ئشی کلچر نے اب مذہبی عبا دات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو لوگ سرکا ری حج پر جا تے ہیں وہ شرمندہ شرمسار پھرتے ہیں بتانے سے گریز کر تے ہیں جو لوگ پرائیوٹ حج کر تے ہیں وہ بلا بلا کر سب کو بتا تے ہیں اور پھر مکہ مدینہ میں قریب ترین ہو ٹلوں کی نما ئش بتا ئی جا تی ہے۔
پھر عمرے کے پیکج کس گروپ سے ۔یہاں تک کے مر نے والے کو کس قبر ستان میں دفن کر نا ہے میں ایک جنا زے پر گیا تو ورثا نے جنا زے کے ساتھ لمبے لمبے با نس باندھے ہو ئے تھے یہ مرنے والے کی بھی خوا ہش تھی کہ رش اتنا زیا دہ تھا کہ جنا زے کو بانس باندھنے پڑے اور پھر مرنے کے بعد پو رے علا قے میں اعلا ن کر ائے جا تے ہیں مرنے کے ساتھ ہی گھر والے مہنگے ترین ٹینٹ اور کھا نوں کا اہتمام کر تے ہیں جو لوگ کھا نوں میں بو فے لگا دیں ان کی شہر ت چاروں طرف پھیل جا تی ہے پھر مرنے پر معاشرے کے با اثر لوگوں کو بلا یا جا تا ہے اور گھنٹوں لا ش کو رکھ کر خا ص لوگوں کا انتظا ر کیا جا تا ہے۔
اخبا رات میں بڑے بڑے اشتہار شائع کئے جا تے ہیں کہ سوگواران مرنے والے کے بعد اپنی اما رت کے اشتہار چلا تے ہیں اِس مر ض میں ہما را سارا معاشرہ ڈوبا نظر آتا ہے ہم چام کے دام چلا کر سیٹھ بننا چاہتے ہیں شیر ِ پنجاب شیر پاکستان شیر بنگا ل ثانی قائداعظم محا فظ جمہوریت خطیب پاکستان خطیب اسلام عالمی مبلغ اسلام پیر طریقت سرتاج الاولیا ء مفتی اعظم مفتی پاکستان یہ لو گ اپنی نگرانی میں اشتہار اپنی مر ضی سے چھپواتے ہیں نام کے ساتھ ہو ش اڑانے والے حشر اٹھا دینے والے القاب و خطابا ت پھر جلسے میں اپنے آدمی بھیج کر قصید المثال اور پر جو ش استقبال کرا نا سٹیج سیکرٹری کو چٹ بھیج کر اپنا نام مجو زہ القاب کے ساتھ پکا رنے کی تا کید کرنا اور پھر وقت آنے پر یہی کاغذی شیر موت کے غار میں اتر تے ہیں تو ڈاکٹر کہتے ہیں اِن کوفوری دفنا دو ورنہ جسم سوج جا ئے گا بد بو آئے گی پیٹ پھٹ سکتا ہے جب یہ قبروں میں اُترتے ہیں تو زہریلے کیڑے مکو ڑے اِن نازک جسموں کو اُدھیڑ ڈالتے ہیں۔