گزشتہ دنوں جوڈیشل اکیڈمی میں عدالتی افسران سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک میں نظام انصاف کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اپنا گھر ٹھیک نہیں کرسکے، ہم نیچے گئے ہیں، ایمانداری پر سمجھوتہ ہونے لگا، نا اہلی آگئی، غلطیاں تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، ہمیںبطور ادارہ غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ ملک ہمیں مفت یا تحفے میں نہیں ملا بلکہ جدوجہد کر کے ملا ہے ہمیں ایک جگہ جم کر کھڑے نہیں رہنا بلکہ آگے بڑھنا ہے۔ دیکھیں کہ ہم نے اپنی دھرتی ماں کی کیا خدمت کی ؟ آج یہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ70 ہزار روپے کا مقروض ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کیلئے قربانیاں دینا پڑیں گی، اورصرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچنا پڑیگا۔ ملک میں پانی کی قلت ایک بین الاقوامی سازش ہے، پانی کا مسئلہ مجرمانہ غفلت ہے، پانی کی کمی کا مسئلہ متعلقہ اداروں کی نااہلی کے باعث ہوا،ہم سب کو ڈیم بنانے کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
میں نے بہت سے شعبوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے لیکن شایدمیں وہ سب کچھ نہیں کرسکا جو کرنا چاہتا تھا۔ انہوںنے کہا کہ بعض اوقات قوانین میں تبدیلی کے باوجود بہت سے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ جب تک ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق خود کو تیار نہیں کرتے تیز ترین انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہم اپنے اہداف حاصل کر پائیں گے۔ آج کے دور میں ہم امریکا میں ویڈیو پر بات کر سکتے ہیں لیکن لاکھوں کی پراپرٹی پٹواری کے زبانی انتقال پر محیط ہے، اس طرح آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک پٹواری کی محتاجی برقرارہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ججز کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر جذبہ پیدا کیا جائے، ہم اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کریں اسے اپنے لئے مغفرت او رنجات کا ذریعہ بنائیں، اسے تکریم، عزت اور رزق کا ذریعہ سمجھیں، پھر ہمیں کیوں پھل نہیں ملے گا”۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی حقیقت بیانی لائق تحسین ہے جس میں انہوں نے سسٹم میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور انصاف کی فراہمی کے لئے ججز میں جذبہ بیدار کیا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مادّی وسائل کی قلت کے باوجود معاشرے پرامن رہ سکتا اور ترقی کرسکتا ہے، لیکن اگر لوگوں کو انصاف نہ ملے تو کسی بھی تدبیر سے قوموں کو تباہ ہونے سے بچایا نہیں جاسکتا۔ قانون پسند معاشرے میں کوئی شخص ہو یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، بلکہ کوئی چاہے کتنا بھی طاقتور ہووہ ریاست کے بنائے ہوئے قوانین کے سامنے بے بس و لاچار ہوتا ہے۔ قوانین جنہیں حرف عام میں زندگی گزارنے کے اصول بھی کہا جاسکتا ہے، بنائے ہی انسانی بھلائی کے لیے جاتے ہیں۔مہذب معاشروں میں قانون ساز اداروں کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہوتی ہے جہاں عوام کے نمائندے گاہے بہ گاہے ملکی حالات و واقعات کے مطابق قانون سازی کرتے اور عدالتی سسٹم کو مضبوط بناتے ہیں۔
آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی وخوشحالی کا جائزہ لیا جائے اور دوسری جانب ترقی پذیر ممالک کی پست حالی کا بھی بغور جائزہ لیا جائے تویہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس اقوام نے ریاست کے بنائے ہوئے اصولوں کااحترام کیا وہ بام عروج پر پہنچ گئیں اور جنہوں نے قوانین کو مذاق سمجھا ،یا تو وہ برباد ہوگئیں یا تباہی کے دہانے پر جاپہنچیں۔ بدقسمتی سے ہم ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں، نہ توہم اسلامی اصولوں کے مطابق خود کو ڈھال سکے ہیں اور ناخود میں وہ ولولہ و جوش پیدا کر سکے ہیں جو ہمیں کم از کم جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود ،ریاست میں قانون کا نفاذ سب کے لئے برابر نہیں، ہمارے ہاں عوام کے لئے سخت ترین قوانین مگر وڈیروں اور لٹیروں کے لئے کمزور ترین قانونی شکنجہ ہے جس کے باعث یہ لوگ قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والی بڑی بڑی مچھلیاں قانون کے آہنی شکنجے سے کیسے بچ نکلتی ہیں؟ یہ بھتہ مافیا، یہ ٹیکس چور، یہ قبضہ مافیا، یہ کرپٹ افرادآخر کب قانون کی گرفت میںآئیں گے۔
آج اگر ریاست کا موجودہ عدالتی سسٹم بہتر ہوتا تو ہمیں قیام امن کے لئے فوجی یا خصوصی عدالتوں کی ہر گز ضرورت نہ ہوتی۔ بد عنوانی، لوٹ کھسوٹ، طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قانونی معیارات اور فراہمی انصاف میں غیرجانبداری کا یقینی نہ بنایا جانا، یہ سب بے انصافی اور ظلم ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ جبکہ اس وقت ملک کی مختلف سطحوں کی عدالتوں میں اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں، اور زمین وجائیداد اور مالک مکان اور کرایہ دار کے جھگڑوں جیسے معمولی مقدمات کے فیصلوں میں بھی بیس بیس سال لگ جاتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ملک کی بہتری ،اور عوام کی خدمت کے جس جذبے سے سرشار ہیں۔
اس کا اظہار کرپشن کے خاتمے، صحت و صفائی کی سہولتوں اور ہسپتالوں و تعلیمی اداروں کی اصلاح سے لے کر پانی کی قلت کے ہولناک مسئلے سے نمٹنے کی خاطر ڈیموں کی تعمیر تک انکی کاوشوں سے بخوبی ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ انکی اصل ذمہ داری اپنے اختیارات کی حد تک حتی الامکان نظام انصاف کی خامیوں کو دور کرنا اور اسے اس طرح جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہے کہ ہر شہری کو فوری اور سستا انصاف مل سکے۔ اگر قیام پاکستان کے مقاصد پر غور کیا جائے تو دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ہی ہمارے لئے کافی ہے ، انہوں نے ہمیشہ اقرباء پروری ، سفارش اور رشوت جیسی لعنتوں کا قلع قمع کرنے اور بلا تفریق انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔ معاشرے میں پائیدار امن کے لئے بھی بلا امتیاز انصاف کی فراہمی لازمی ہے، کیونکہ جب مظلوم کو عدل کے ایوان سے انصاف نہ ملے تو پھرجنگ و جدل اور خانہ جنگی کا ماحول جنم لیتا ہے جو کہ ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔