تحریر : ممتاز ملک. پیرس جیسے جیسے وقت کا انداز بدلا اس کی ضروریات بدلتی ہیں ویسے ویسے لوگوں کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز بھی بدلنے لگتا ہے . آج ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اسے اگر ہوائی زمانہ کہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا. پہلے وقتوں میں ہوائی روزی ہوا کرتی تھی یا پھر ہوائی مخلوق کے قصے سنائی دیتے تھے. باقی سب کچھ نظر کے سامنے ہوا کرتا تھا. جیسے کون کس سے ملتا ہے ؟اس کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ اس کے گھر کس کس کا انا جانا ہے ؟ اسی تناظر میں اس کے چال چلن کا بھی تعین کر لیا جاتا تھا. کہنے والے اسے دوسرے کی زندگی میں پرائیویسی پر حملہ یا دخل اندازی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں بھی یہ ماننا پڑیگا کہ پرائیویسی کے نام پر نئے نئے گل نہیں کھلائے جا سکتے تھے. ہر شخص دوسروں کی نظر میں رہتا تھا . اوراس کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہہں رہ سکتا تھا . اور جوابدہی کے لیئے بھی ذمہ دار تھا.
لیکن آج کیا کریں کہ ہر انسان خود کو اخلاقی قدروں سے اخلاقیات سے بھی خود کو اس موئی پرائیویسی کے نام پر آزاد کر کے دوسرے کی پرائیویسی میں دخل اندازی کے نت نئے حربے آزمانے اپنا حق سمجھنے لگا ہے.
سادہ لفظوں میں کہئیے تو کسی کے گھر مہماں بنکر گئے ہوں تو اس کے دوسرے مہمانوں یا رشتہ داروں کے اتے پتے بڑے رازدارانہ انداز سے حاصل کر لیئے جاتے ہیں . پھر اس بلانے والے میزبان کی مل کر خوب بینڈ بجائی جاتی ہے . جس کے دسترخوان پر انہیں اکھٹے متعارف ہونے کا موقع ملا اسی کے کردار پر،اس کے خاندان پر اور تو اور اس کے دو چار سال کے بچوں پر بھی ایسی ایسی موشگافیاں کی جاتی ہیں . کہ جس کا علم ان کو ملانے والے کے کیا، اسکے فرشتوں کو بھی خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا . پھر اس ملانے والے کو بیچ میں سے صفر کر دیا جاتا ہے اور آپس میں محبت کے منافقانہ پینگیں بڑھائی جاتی ہیں.
اسی کی ایک اور مثال آج کا سوشل میڈیا فون اور خصوصا فیس بک لے لیجیئے . اس میں اکثر دوسرے کی محبت میں فرینڈ ریکوئسٹ نہیں بھیجتے بلکہ ان کا مقصد اس لسٹ میں موجود فرینڈ سرکل کو تاڑنا ، پھر ان سے عقیدت اور محبت رکھنے والوں کو ان بکس میں جا کر ہاتھوں پر ڈالنا ؟ ان سے خصوصی تعلقات استوار کرنا ؟ اس کی کردار کشی کر کے اسے دوسرے کی نظر سے گرانا، اور پھر اس کے جو کام نکلوانا ہے اس کے لیئے ہر قیمت پر کام نکلوانا، یہاں تک کہ اس بات پر اسے ہراساں کرنا کہ اچھاااا آج کل بڑا فلاں فلاں کی پوسٹ پر لائیک اور کومنٹس کیئے جا رہے ہیں ، ہوں ں ں ں ں. کیا چکر ہے ? یہ سب اس انداز میں کہا جائیگا اور فون پر اس کا ایسا برین واش کیا جائے گا کہ اچھا بھلا شریف اور بہادر انسان بھی پریشان ہو کر اچھے سے اچھے دوست سے بھی کنی ٹکرانے لگتا ہے کہ خدا جانے اور میری باتوں کو کیا کیا رنگ لگا کر پیش کر دیا جائیگا . سو اپنی بھی عزت تو نہیں بنتی وقتی فائدے ہی لینے ہوتے ہیں . لیکن دوسرے کے لیئے اگلے کے دل میں شیطانی کا بیج ضرور بو دیا جاتا ہے .
ایسے لوگ کبھی کسی کے مخلص دوست نہیں ہو سکتے . یہ ٹائم پاس لوگ ہوتے ہیں . ان کی کبھی مستقل دوستیاں نہیں دکھائی دیں گی . جو دوستیاں ہونگی بھی ان کے ساتھ ان کی آئے دن کی لڑائیوں کے بعد وقتی مفادات کے لیئے ایک میز پر اکٹھے ہو کر جھوٹے قہقہے اور مشروط ملاقاتیں ہی ہوں گی .
اب کیا کہیں ایسے لوگوں کو جو ہوائی انداز سے ہواوں میں گھر بناتے ہیں . دوست پالتے ہیں اور ہوش آتے ہی حقیقت کے فرش پر دھڑام سے گرتے ہیں.
بقول “باقی صدیقی” کے
خود فریبی سی خود فریبی ہے پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے