تحریر : محمد نورالہدیٰ ریسکیو 1122 چوہدری پرویز الٰہی کا لگایا گیا وہ پودا ہے جس کی پھیلتی کونپلیں حادثات کا شکار ہونے والے شہریوں کیلئے مرہم کا کام دے رہی ہیں ۔ اس منصوبے کا آغاز 2004 میں ہوا اور اب تک کروڑوں افراد اس سے مستفید ہوچکے ہیں ۔ یہ امر قابل ستائش ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی 1122کی آبیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اب ریسکیو 1122 کو اپ گریڈ کرتے ہوئے انہوں نے اس سروس میں موٹر بائیک ایمبولینس کا بھی اضافہ کردیا ہے … یعنی حادثہ کی صورت میں اب زخمی کو گاڑی دستیابی کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا ، ایک فون کال پر فوراً 1122 کی ضروری طبی سہولتوں سے لیس موٹر بائیک جائے حادثہ پر پہنچے گی ۔ یہی نہیں بلکہ یہ سروس شروع کرنے کا مقصد جو شہباز شریف نے بیان کیا ، وہ یہ بھی تھا کہ ایسی تنگ گلیاں جہاں گاڑی نہیں جاسکتی ، وہاں موٹربائیک ایمبولینس سروس ریسکیو خدمات مہیا کرے گی اور یوں ضرورتمند کو فوری علاج میسر آئے گا۔
بالغ النظری اور تنقید کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو مذکورہ سروس اہل پنجاب کیلئے کسی قیمتی تحفے سے کم نہیں ۔ صرف لاہور شہر میں 1122 کو روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 300 حادثات رپورٹ ہوتے ہیں ۔ ان حادثات کا شکار لوگوں کو بلامعاوضہ اور کوئیک ایمولینس سروس مہیا کرنا یقیناً ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے ۔ اس ادارے نے کم وسائل میں رہتے ہوئے بھی اپنا آپ منوایا اور کئی زخمیوں کو مرہم لگایا ۔ آج ریسکیو سروس پنجاب کے ہر شہر ، ہر ضلع تک پھیل چکی ہے … جبکہ موٹر بائیک ایمبولینس سروس کیلئے پہلے مرحلے میں پنجاب کے 9 ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کو چنا گیا ہے ۔ حکومت پنجاب کی جانب سے مستقبل قریب میں پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں بھی جلد یہ سروس شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ پنجاب حکومت کی یہ نئی ایمرجنسی سروس عوام کو تیز ترین طبی امداد کی فراہمی کا ایک سستا ذریعہ ہے اور بلاشبہ اس اقدام سے ریسکیو کے روزمرہ اخراجات میں بھی کمی آئے گی ۔ وگرنہ اب تک ریسکیو کی ایک گاڑی فی ایمرجنسی سروس 6 سے 7 ہزار روپے میں پڑ رہی تھی … موٹر بائیک سروس اس سے آٹھ گنا سستی پڑے گی جس سے ریسکیو کے خزانے پر بوجھ کم ہوگا ۔ یوں ایمرجنسی خدمت کی شرح بھی بڑھے گی اور گھروں میں ایمرجنسی مریض بھی اس سے مناسب انداز میں مستفید ہوسکیں گے ۔ نہ صرف یہ ، بلکہ جن لوگوں کو رش وغیرہ کی وجہ سے انتظار اور تکلیف کی کوفت سے گزرنا پڑتا تھا ، وہ بھی جلد علاج کے مرحلے سے گزر سکیں گے ۔ پس یہ سروس پرائمری ہیلتھ کئیر کی مد میں ایک بڑی نعمت ہے ۔
حکومتوں کے ہر منصوبے کے حق اور مخالفت میں ردعمل آنا معمولی بات ہے ۔ اس منصوبے کے حامی و مخالف بھی کم نہیں ہیں ۔ ریسکیو 1122 کے ”بانی” چوہدری پرویز الٰہی نے موٹر بائیک ایمرجنسی سروس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ یہ سروس صرف اندرون شہر کی حد تک کارآمد ہوسکتی ہے ، مریضوں کو ہسپتال پہنچانے میں معاون ثابت نہیں ہوگی ۔ اس کی بجائے اگر حکومت خراب گاڑیاں ٹھیک کروا لیتی یا جن اضلاع میں گاڑیاں موجود نہیں ، وہاں نئی گاڑیوں کا بندوبست کردیتی تو منصوبے کے دوررس نتائج برآمد ہوتے ۔ انہوں نے ریسکیو کے بجٹ کے حوالے سے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن وہ شاید یہ امر نظر انداز کرگئے کہ ان کے دور میں یہ سروس پنجاب کے صرف 6 اضلاع میں تھی ، آج نہ صرف ہر ضلع میں ہے بلکہ اس قابل ہوچکی ہے کہ بوقت ضرورت دیگر صوبوں کو بھی سروسز دے رہی ہے ۔ انہوں نے جتنی گاڑیوں سے منصوبے کا آغاز کیا تھا ، آج یہ تعداد 8 گنا بڑھ چکی ہے ۔ پرویز الٰہی کے اعتراضات یا تحفظات اپنی جگہ ، لیکن حضور ! یہ حقیقت بھی تو دیکھئے کہ موٹر بائیک سروس بروقت طبی امداد کی فراہمی میں کس قدر معاون ثابت ہوگی ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ لاہور کی ٹریفک کی صورتحال کس قدر گھمبیر صورتحال اختیار کرچکی ہے ۔ اس ضمن میں اگر کہیںکوئی حادثہ ہوتا ہے تو ریسکیو کی گاڑی ، جسے اطلاع کے بعد 10 منٹ کے اندر پہنچنا ہوتا ہے ، کو عموماً متعلقہ راستوں پر رش کی صورت میں جائے حادثہ تک پہنچنے میں تاخیر کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ موٹر بائیک ایمبولینس سروس پر بعض حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا جارہا ہے کہ اگر کسی مریض کو موقع سے ہسپتال لے جانا مقصود ہو تو یہ سروس وہاں کیسے فائدہ دے سکتی ہے ؟ ریسکیو ذرائع کے مطابق 1122 موٹر بائیکس پٹرولنگ پر مصروف رہیں گی اور حادثہ کی اطلاع پر فوراً متعلقہ مقام پر پہنچ کر فرسٹ ایڈ دیں گی ۔
اس دوران ایمبولینس پہنچ جائے گی جو مزید ٹریٹ کرے گی ۔ نہ صرف یہ ، بلکہ فرسٹ ایڈ کی جو سہولت متاثرہ فرد کو فون کال کے 10سے 15منٹ بعد ملتی تھی ، اب موٹر بائیک ایمبولینس کی وجہ سے 5سے 7 منٹ میں ملا کرے گی ۔ یوں یہ سروس ریسکیو کی کارکردگی کو مزید موثر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی ۔ مزید یہ کہ ، اس منصوبے کے آغاز سے ریسکیو 1122 کی افرادی قوت (مین پاورز) میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ پرویز الٰہی سابق وزیراعلیٰ ہیں تو یقینا پنجاب کے معاملات پر بولنا ان کا بھی ”حق” ہے ، مگر جناب ! اس زمینی حقیقت کو بھی قبول کیجئے کہ یہ منصوبہ ہر لحاظ سے دور رس نتائج دے گا … اگر ایسا نہ ہوتا تو اپوزیشن پارٹی سے تعلق رکھنے والی ممبر پنجاب اسمبلی نوشین حامد معراج جو بذات خود ڈاکٹر بھی ہیں ، کبھی اس منصوبے کو پلس پوائنٹ قرار نہ دیتیں ۔
ایم پی اے ڈاکٹر نوشین حامد کہتی ہیںکہ لاہور اور پنجاب میں بہت سی ایسی آبادیاں اور گلیاں ہیں جہاں عام چھوٹی گاڑی بھی نہیں جاسکتی ۔ لہذا فرسٹ ایڈ امداد کے اعتبار سے اس سروس کا فائدہ ضرور ہے لیکن یہ بڑی ایمرجنسی میں مفید ثابت نہیں ہوگی ۔ نوشین حامد نے یو سیز میں ڈسپنسریاں فنکشنل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ گھریلو مریضوں کو موٹر بائیک ایمرجنسی سروس سے استفادہ کی بجائے ابتدائی طبی امداد کیلئے مذکورہ ڈسپنریوں سے رجوع کرنا چاہئے جہاں متعلقہ بیماریوں کا ضروری سازوسامان موجود ہوگا ۔ انہوں نے اس امر کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ ریسکیو سروس کی افادیت قائم رکھنے کیلئے حکومت اس کی سرپرستی کرتی رہے اور کبھی تنہا نہ چھوڑے ۔ اس منصوبے کے آغاز سے ریسکیو اہلکار بھی بے حد خوش ہیں ۔ ایک ریسکیو آفیسر نے اسے انقلابی قرار دیا اور کہا کہ نئی سروس سے نہ صرف ان کا جذبہ اور کمٹمنٹ بڑھے گا بلکہ عوام کیلئے ایمرجنسی خدمات میں بھی اضافہ ہوگا ۔ اہلکاروں نے رسک الائونس میں اضافے پر بھی مسرت کا اظہار کیا تاہم انہیں یہ تشویش بھی ہے کہ 10 سال گزرنے کے باجود ان کی ترقی نہیں ہوسکی ۔
ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر رضوان نصیر نے اس سروس کے ذریعے لوگوں کو ان کی دہلیز پر ایمرجنسی سروسز مہیا کرنے اور 1122 کا دائرہ کار پنجاب کی تمام تحصیلوں تک پھیلانے کی نوید سنائی ہے ۔ اس ضمن میں جہاں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اس سروس کو ترجیحی بنیادوں پر پورے ملک میں پھیلایا جانا چاہئے ، وہیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لاہور سوا کڑوڑ آبادی کا شہر ہے ، مگر اس کیلئے شعبہ 1122 کے پاس پانی ڈالنے والی صرف ایک گاڑی ہے جبکہ کوئیک ایمرجنسی سروس کے ضمن میں 44 ایمبولینسیں ، 30 آگ بجھانے والی گاڑیاں ، 6 سپیشل اور 5 ریسکیو وہیکلز کے ذریعے یہ شعبہ لاہور میں خدمت کا کام کررہا ہے ۔ پنجاب کی مجموعی صورتحال اس سے ملتی جلتی ہی ہے ۔ حکومت کا جذبہ قابل قدر ، لیکن اسے یہ شعبہ اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ امدادی گاڑیوں کی تعداد بڑھانے پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہئے … نیز ترقی کے منتظر سینکڑوں ، ہزاروں ریسکیورز کی پریشانی دور کرنے کیلئے بھی اقدامات وقت کی اولین ضروریات میں سے ہیں ۔
ریسکیو ورکرز ہمارے لئے قابل احترام ہیں جو لوگوں کی زندگیاں بچانے کیلئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ ان کے رسک الائونس میں اضافہ اگرچہ خوش آئند امر ہے لیکن ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات کو اچھے طریقے سے پورا کرنا بہت اہم ہے ،لہذا قوم کے ان اصل ہیروز کو وسائل سے بھی لیس کیاجانا چاہئے تاکہ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے انہیں ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے۔ یہ اقدام ان کی دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے اور عزم کو آگے بڑھانے کیلئے یقیناً ایک سنگ میل کی حیثیت رکھے گا اور مذکورہ کاوشوں کے نتیجے میں یہ شعبہ مزید موثر ہو گا۔