ہم نے ملالہ کے متعلق پچھلے پانچ کالموں میں عرض کیا تھا کہ ملالہ کا ڈرامہ ویسا ہی ہے جیسے سوات کے کوڑوں والی لڑکی کا تھا جسے بیرونی فنڈڈ ملکی غیر ملکی میڈیا نے آسمان پر اُٹھایاتھا ۔ ایک خاص ذہن کے کالم نگاروں نے کالم پر کالم لکھے تھے۔ جس کا بعد میں ڈرامہ کرنے والوں نے اعتراف بھی کیا تھا۔ پاکستان کی عدلیہ نے اس ڈرامے کو جھوٹا ثابت کیا تھا۔ کاش ملالہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو یا کوئی امریکی کریگ مونٹیل کے طرح زندہ ضمیر انسان بول اُٹھے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ آئے دن بیرونی این جی اوز، بیرونی فنڈڈ کالم نگاراور میڈیا ہمار ے ملک میں اپنے بیرونی آقائوں کی ضرورت کے لیے ایساکرتے رہتے ہیں۔ ان کا خصوصی نشانہ ہمارے ملک میں مسلمان خواتین کے خلاف نام نہاد ظلم کی بنی بنائی داستانیں ہیں۔
اس کی ایک وجہ عیسائی دنیا میں عورتوں پر مظالم کی اور ان کا اسلام قبول کرنا ہے۔ بجائے عیسائی اپنے ملکوں میں اصلاح کی کوششیں کر کے اپنی عورتوں پر مظالم ختم کر یں وہ اسلامی دنیا اور خاص کر پاکستان میں عورتوں پر مظالم کے واقعات بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی عورتیں اسلام سے متنفر ہوں اور اسلام قبول نہ کریں۔ اس میںہمار ے نادان لالچی کالم نگار اور بیرونی فنڈڈ میڈیا ان کی مدد کرتا رہتا ہے۔ پہلے مائی مختاراں کے واقعے پر اس کو امریکا بھیجا گیا وہاں اسے پورے امریکا میں گھمایا گیا اس کی کہانی کو پوری دنیا میں پھیلایا گیا۔یہودیعیسائی میڈیا نے اس کی خوب تشہیر کی۔
اُسے درجنوں ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اُس کی سوانح حیات بھی لکھی گئی جیسے اُس نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کیا ہو۔اس کے بعد ملالہ کی کہانی اورکتاب کو تشہیر دی گئی۔سینکڑوں انعامات سے نوازا گیا جیسے سکندر اعظم سے بھی زیادہ فتوحات کی ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملالہ کے باپ نے گلوبل پیس کے نام سے ایک این جی او قائم کی تھی اس کے ذریعے سی آئی اے سے فنڈ حاصل کرتا رہا۔ سی آئی اے کے لوگوں سے ضیاالدین یوسف زئی کی ملاقاتوں کے فوٹو سوشل میڈیا نے جاری کئے تھے۔ ملالہ کے ڈرامے کی پلانگ کے لیے ان سے ملاقاتیں میں کرتا رہا تھا۔
اس کی تصویریں سوشل میڈیانے جاری کی تھیں۔ اس کی مدد کرنے والے ایک امریکی جرنلسٹ جو بھیس بدل کر مصنوعی چہرا بنا کر کام کر رہا تھا کی بھی تصویر جاری کی تھی۔ مقامی کالم نگار اور لوگ اس بات کو بار بار بیان کر رہے ہیں کہ ملالہ نے تعلیم کی لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔ بلکہ اب بھی ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی کو اپنے کالموں میں طعنے دیتے ہیں کہ اس نے لالچ میں آکر پٹھانوں کے کلچر کو بدنام کیا۔ پہلے بی بی سی کے مقامی بیورو چیف نے جس نے دہشت گردی کی آڑ لے کر طالبان کو بدنام کرنا تھااس کی ڈائری گل مکئی کے مصنوعی نام سے لکھنی شروع کی ۔ بی بی سی سے اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اس کی خوب شہیر کی۔
بی بی سی کا مقامی بیورو چیف ترقی پا کر نیوز پروڈیوسر بن گیا۔ پہلے ہی دن پریس میں خبر آئی تھی کہ ملالہ کو سر اور گردن میں دو گولیاں لگی ہیں۔ زخمی سر اور گردن کا کوئی فوٹو جاری نہیں کیا گیا۔ بلکہ آج تک نہ گردن والے زخم کی کوئی تصویر جاری کی گئی نہ سر کی ایسی تصویر جس سے ظاہر ہو کہ آپریشن کے لیے سر کے بال کاٹے گئے اور سر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا نے لندن میں بنائی گئیںملالہ کی صاف ستھری چہرے کی تصویں جاری کی ہیں۔ جب زخمی ملالہ کو سوات سے پشاور منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر میں سوار کرنا تھا تو ملالہ سرخ کپڑوں میں ملبوث چل کر ہیلی کاپٹر پر اپنے والد کے ساتھ جارہی تھی جس کا فوٹو سوشل میڈیا نے جاری کیا تھا پھر اسی سرخ کپڑوں والی لڑکی کا پشاور ہسپتال میںڈاکٹر معائنہ بھی کرتے دکھائے گئے ہیں۔
کالم نگار شہزاد عالم کے مطابق سوات میں دہشت کے دورمیں ملالہ اپنے والد کے ساتھ ایبٹ آبا میں مقیم تھی جب اپنے والد کے ساتھ سوات واپس آئی اورامن کے بعد٢٠٠٩ء میں اخپل کور ماڈل اسکول میں امن کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں یوسف زئی صاحب بھی شامل تھے اس میٹنگ میں مقامی سواتی حضرات نے جس میں غلام قادر سپین دادا نے ضیاء الدین یوسف زئی کو کھری کھری سنائیںاور سرزنش کی اور کہا کہ اس سازشی کھیل کو ختم کرو!یہ ہیں ملالہ کہانی کے مقامی چشم دید لوگ جن کے خیالات ہم نے قلم بند کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چاند اخبار سوات میں مرزا عبدالقدوس کے ایک مضمون میں سب حقیقت بیان کی گئی ہے۔
Muslim Ummah
ڈاکٹر سلطان روم نے اخبار آزادی سوات میں بھی پانچ قسطوں میں ملالہ کہ کہانی بیان کی ہے۔ صاحبو! مسلم امت کا یہ حال ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں عیسائی دنیا میں مسلمان کیمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کی رپورٹ بھی موجود ہے۔پوری دنی نے لاکھوں دہشت گردی کے واقعات کو مسلمانوں سے جوڑ کر نیٹ پر ڈال دیا ہے۔ میں نے نیٹ پر” وکی مسلم” کے نام سے تقریباً ٦٠ صفحوں سے زیادہ میں پرنٹ نکال کر رکھے ہیں۔ ہندوستان نے بھی ایک ا یسی ہی پوسٹ نیٹ پر ڈالی تھی میرے فوٹو نکانے سے پہلے ہی کسی وجہ سے ہٹا دی گئی تھی۔ میں نے یہ پرنٹ محفوظ رکھے ہوئے ہیں اس خواہش کے ساتھ کہ کاش کوئی اس کا جواب دینے والا ہو؟ ١١٩ کے بعد مہم کے طور پر مسلمانوں کے خلاف ایسے واقعات سے پریس بھری پڑی ہے امریکہ میں مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا کہ مسلمانوں کی ریکی کی جاتی ہے اور انہیں جعلی واقعا ت میں ملوث کیا جاتا ہے۔
میں ملالہ کی کہانی کے کرداروں سے انسانیت کے نام سے اپیل کرتا ہوں کہ کاش ان میں سے کسی کا اندر کا انسان جاگ اٹھے جیسے ایک امریکی بدمعاش کریگ مونٹیل کے اندر کا ا نسان جاگ اُٹھا تھا تاکہ امت مسلمہ پر لگائے جھوٹے الزام دُھل جائیں۔ صلیبیوں کی شیطانی چالوں کا اس بات سے اندازہ کیجیے کہ معروف عرب چینل الجزیرہ کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ایف بی آئی کے افرادمنافق بن کر اسلام لاتے ہیں ایجنٹ بن کر مساجد میں آتے ہیں اور سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو مساجد میں جہاد پر اُکساتے ہیں ان کے ذہن میں چھپے جہادی خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور دھوکا دے کر بدلہ لینے اور تخریبی کاروائیوں میں ملوث کرتے ہیں اس قسم کی تازہ مثال کریگ مونٹیل ایک بدماش امر یکی سفید فام کی ہے۔
اس کو ایف بی آئی نے پونے دو لاکھ ڈالر دے کر اس بات پر تیار کیا۔اس نے اپنا فرضی نام فرخ عزیز ظاہر کر کے ایک صومالی نوجوان محمد عثمان محمود کو کرسمس پر دھماکہ کرنے پر تیار کیا۔کرسمس ٹری بم سازش تخریب کاری پر اُکسایا بم میں مصنوی دھماکہ خیز مواد رکھا۔اس کے بعد عین موقعے پر بم بلاسٹ کرتے ہوئے ایف آئی بی نے اس مسلمان نوجوان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا اور پرنٹ اور الیکٹرو نک میڈیا پر اس کی خوب تشہیر کی ساری دنیا میں اس کرسمس ٹری بم سازش کا پرو پیگنڈہ کیا گیا اور مسلمانوں کا دنیا بھر میں دہشت گرد ہونے کا واویلا مچایا گیا۔
صلیبی مکر کرنے والوں سے اللہ کا مکر جیت گیا اور کریگ مونٹیل کے اندر کا انسان جاگ اٹھا اور اس نے اس بات کا اعتراف کیا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے سامنے ساری سازش کو بے نقاب کر دیا۔ پہلے تو ایف بی آئی کے اعلیٰ افسران نے اس واقعے سے انکار کیا پھر جب کیریگ مونٹیل نے ایف بی آئی کا نشان پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے سامنے پیش کیا تو ایف بی آئی نے کہا کہ مجرموں کی تلاش میں ایسے کام کرنے پڑتے ہیں۔کریگ مونٹیل نے ایف بی آئی پر مقدمے کا اعلان کر دیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کوئی ایسا ہی کردار ملالہ کی کہانی میں بھی پیدا ہو جائے۔