تحریر : صاحبزادہ مفتی کل میں اپنے ایک دوست کو ملنے ان کے گھر گیا تو معلوم ہوا موصوف گھر پر موجود نہیں ہیں ان کے سیل پہ را بطہ کیا تو موصوف بو لے میں اس وقت شہر سے با ہر ہوں تحقیق کر نے پر پتہ چلا ,,صادق اور راست باز ،، دوست جن کو اب دوست کہتے بھی شرم آ رہی ہے گھر کے ساتھ وا لی گلی میں سکول کے بچوں کو سچائی اور صداقت پر لیکچر دے رہے ہیں اور ان کو گلا پھا ڑ پھا ڑ کر کہہ رہے تھے کہ پیارے بچو! آ پ نے جھوٹ کبھی بھی نہیں بو لنا ہمارے آقا ۖ نے ہمیشہ ہمیں سچ بو لنے کا حکم دیا ہے ،آج ہم دنیا میں کیوں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور ہمیں شک کی نگا ہ سے کیوں دیکھا جا تا ہے ؟صبح سویرے تمام اُردو میڈیم سکولوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو علامہ اقبال کی معروف دُعا ,,میرے اللہ ہر برائی سے بچا نا مجھ کو ،نیک جو راہ ہو اسی راہ پہ چلانا مجھ کو ،، از بر کرا ئی جا تی ہے اور گھول کر پلائی جا تی ہے اور ذرا جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہیں تو ہر نماز میں ,,اھدنا الصراط المستقیم،،کی تلاوت کو ورد ِزباں اور حرزِ جاں بنا یا جا تا ہے مگر نتیجہ وہی ,,ڈھاک کے تین پات ،، والی بات ،نہ تو ہم کسی چھوٹی بڑی برائی سے بچتے ہیں اور نہ ہی سیدھی راہ پہ چلنے کی کو شش کر تے ہیں ہما ری کھو پڑی ہمیشہ اُلٹی گھو متی ہے ،سکول میں پڑھی جا نے والی دُعا اور مسجد میں ,,قائم ،،کی جانے والی نماز صرف اور صرف دکھاوے کے لیے ہوتی ہے۔
دُعا اُستاد کے ڈنڈے کے ڈرسے پرھی جا تی ہے اور نماز ابا حضور کے دَبکے کی وجہ سے ، ,,ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا،درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کر نا ،،شعور کی منازل طے کر نے کے بعد نہ تو ہم غریبوں کی حمایت کرتے ہیں اورنہ ہی ضعیفوں اور درد مندوں سے پیار کرتے ہیں ہماری حمایت اور درد مندی کا محور و مرکز ہمیشہ علاقے کا وڈیرہ ، رسہ گیر ، جاگیر دار ،سر مایہ دار ، زر دار اورزُور دار ہی رہا ہے ، بچپن میں لوگ بچوںسے پو چھتے ہیں کہ آپ نے کیا بننا ہے ؟تو بچے بڑی معصومیت اور جذبے سے کہتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر بننا ہے اور غریبوں کا مفت علاج کرنا ہے مگر جب وہی بچے تعلیمی منا زل طے کرتے کرتے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر اور ہا ئوس جاب مکمل کر کے عملی زندگی کا آغاز کر تے ہیں تو وہی بچے جو پو چھنے پر بتا تے تھے کہ ہم نے غریبوں کی خدمت کرنی ہے آج جب وہ گا ئون پہنے اور گلے میں سٹیتھو سکوپ لٹکائے کرسی پر بیٹھے ہو تے ہیں تو وہ,,ایثار پیشہ ،،کم اور ,,دینار پیشہ ،، زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور غریبوں کی کھا ل ادھیڑنا اپنا فرض منصبی سمجھ لیتے ہیں غریبوں کو میں نے ہمیشہ ہسپتا لوں میں ذلیل ہو تے اور خجل خوار ہوتے دیکھا ہے اور امیروں کو وی آئی پی پرو ٹوکول اور اعلیٰ ٹریٹمنٹ کی سہو لیات مہیا ہوتے دیکھی ہیں غریبوں کی خدمت کے دعوے کرنے والے دینار پیشہ ڈاکٹرز کو میں نے تڑپتے ، سسکتے ، بلکتے مریضوں کو لا وارث چھو ڑ کر خوش گپیوں میں لطیفہ بازی کرتے تو اکثر دیکھا ہے ایک طرف مریض جاں بلب ہو تا ہے اوردوسری طرف قوم کا ,,مسیحا،،کسی کلب میں ہو تا ہے ،یہ قول و فعل کا ,,کھلا تِضاد ،،نہیں ہے۔
ہمارے محلہ کی جا مع مسجد کا خطیب ہر جمعتہ المبارک کو خوبصورت جبہ و قبہ پہن کر منبر پہ بیٹھ کر بہت خو بصورت ، لچھے دار،مزیدار اور پائیدار تقریر کر تا ہے مگر اس کی زبا ن میںوہ تا ثیراور کلام میں وہ اکسیر نہیں ہوتی کہ اس کی کوئی بھی بات سامعین کے دل و دماغ اور روح کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہو۔ اول تو لوگ آتے ہی اس وقت ہیں جب خطیب صاحب عربی خطبہ ارشاد فرما رہے ہو تے ہیں اگر جلدی بھی آنے کی غلطی کر لیں تو پھر خطیب صاحب ,,بارہ تقریروں ،، سے راہنمائی لے کر اٹھارہ راگوں میںسامعین کی ,,سمع خراشی ،، کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں سامعین کے پلے کچھ بھی نہیں پڑ رہا ہو تا کہ خطیب صاحب کا آج موضو ع کیا تھااور علامہ صاحب کہنا کیا چاہ رہے تھے ؟ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم منہاج یو نیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو ڈاکٹر طا ہر القادری صاحب کا جمعتہ المبارک کا خطبہ سننے کے لیے دور دراز سے لوگ صبح سویرے آکر مسجد میں اپنی جگہوں پر قبضہ کر لیتے تھے تا کہ ہم پہلی صفوں میں بیٹھ کر خطبہ کی لذت سے استفادہ کر سکیں اور ڈاکٹر صاحب کے تشریف لانے تک مسجد اندر باہر سے بھر جاتی تھی،صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی علامہ اقبال ٹائون کریم بلاک میں اللہ والی مسجد میں خطبہ دیتے تھے خطبہ شروع ہو نے سے پہلے مسجد میں جم ِ غفیر اکٹھا ہو جاتا تھا کیو نکہ صاحبزادہ صاحب سامعین کو کچھ ڈلیور فر ماتے تھے ہم بھی کبھی کبھی خطبہ سننے کی سعادت حاصل کرنے حاضر ہو تے تھے۔
آج کا خطیب اپنے سامع کو کچھ ڈلیور نہیں کر رہا آج کا ,, علامہ ،، قوم کو فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی کا درس دے رہا ہے اور جب ہم اپنا تعارف ہی شعلہ بیان خطیب کی حیثیت سے کر وا ئیں گے تو پھر ہم نے اپنی زبان سے پھول تو نہیں جھڑنیں ،شعلے ہی اگلیں گے ناں ، معا شرتی اور سماجی مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں موجود ہے مگر ,,علامہ ،، صاحب نے کبھی زحمت ہی نہیں کی کہ وہ معا شرے کے اندر کثرت سے پا ئی جا نے والی سماجی اور معا شرتی برا ئیوں کو اجاگر کر کے ان کا خاتمہ قرآن کریم کی آفاقی تعلیمات اور رحمت عالم ۖ کی پا کیزہ اورمُصفیٰ سیرت سے تلاش کرے،سیرت مصطفیۖ کا ہر پہلو امت مسلمہ کے لیے رخشندہ ،تا بندہ ،در خشندہ اور روشن تر ہے۔
آج استاد کا بھی یہی حال ہے وہ بھی اپنے پیشے سے مخلص نہیں ہے وہ بھی قول و فعل کے کھلے تضاد کا شکار ہے اور نو جوان نسل کو علم کی اہمیت اور افضلیت سے آگاہ کر نے میں بری طرح ناکام ہے آج کا طا لب علم محض ٹائم پاس کر نے کے لیے سکول و کالج کا رخ کر رہا ہے اس کے ذہن میں ملک و قوم کی خدمت اور دین کی سر بلندی کا جذبہ قطعاََ نہیں ہے اور استاد بھی وقت گزاری کے لیے شعبہ تدریس سے وابستہ ہے آج جتنی درس گا ہیں ، حکمت گا ہیں ، دانش گا ہیں اور خا نقاہیں پا کستان میں مو جود ہیں کشور حسین اسلامی جمہوریہ پا کستان جنت نظیر ملک ہو تا اور یہا ں ہر طرف بہا ر ہی بہار ، نکھار ہی نکھار اور سنوار ہی سنوار نظر آتا مگر یہ سب ادارے روٹی روزی کا دھندہ ہیں اس لئے تو ہر طرف مندہ ہی مندہ ہے الا ما شاء اللہ پیروں کی رام کہا نی بھی ملتی جلتی ہے اپنے مریدوں کے نذرا نوں اور فطرا نوں پر پلنے والے جعلی پیر کب اپنے مریدوں کا تز کیہ نفس کر سکتے ہیں ان کی نظر ہمیشہ اپنے مرید کی جیب پر ہو تی ہے بہت قلیل تعداد ہے ایسے صوفی با صفا فقیروں کی جو اپنے مرید کے قلب پر نگاہ رکھتے ہیں اورجن کو جیبوں کی صفائی کی نہیں بلکہ آستانے پر حاضری کی سعادت حاصل کر نے والے مریدکے قلب کی صفائی کی حرص ہو تی ہے اور وہ اس بات کا طمع رکھتا ہے کہ کسی طرح میرے مرید کے دل کی صفائی ہو جائے اور ہمارے ملک میں اب ہرشخص جھوٹ کے سہارے زندگی بسر کر رہا ہے۔