2 نومبر پانامہ لیکس جمہوریت

Barber

Barber

تحریر: چوہدری غلام عباس غوث
بابا جی مہر دین ہمارے گائوں کے حجام تھے اور ہما رے آبائو اجداد کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے باباجی اَن پڑھ ،سادہ مگر دانشور قسم کی آدمی تھے ہمارے گائوں کے اکثر لوگ اُ ن کے مشکور نظرآتے تھے کیونکہ گورداسپور گائوں میں رہتے ہوئے اُنہوں نے اپنے ہاتھوں ہمارے بڑوں کے رشتے ناطے طے کئے تھے مشورہ کمال کادیتے ۔اُن کا دعوی تھا کہ میں گائوں کے اکثر باشندوں کا مزاج آشنا ہوں اور اُن کی اولادیں میرے ہاتھوں سے لگائے ہوئے پودوں کا ثمرہیں اور بزرگ بھی اُن کی دانائی ، سمجھداری اور خالص پن کادل سے احترام کرتے۔

ایک محاورہ تو اکثر لوگوں نے سُنا ہوا ہوگا جو گائوں کے وسیب سے واقف ہیں جب کسی صحت مند وتوانا شخص کو گائوں میں دیکھا جاتا تو اکثر بولا جاتا یہ نائیوں کی بھنیس کی طرح نو بر نو ہے۔ اس کا پس ِ پردہ مقصد یہ ہوتا کہ چونکہ حجام گائوں کی سیپی کرتے ہیں تو وہ آئے روز مختلف چوھدریوں اور زمینداروں کے کھیتو ں سے مختلف انواع کا چارہ لاتے ہیں اور اپنی بھینس کو کھلاتے ہیں جبکہ یہ سہولت اچھے بھلے زمینداروں کے مال ڈنگر کو بھی میسرّ نہیں ہوتی لہذا حجاموں کی بھینس نازونخرے سے چارے کی مختلف ڈشیں کھا کر جلد فربہ ہو جاتی اور اُس کی اِس ہیئت کو ضرب المثل قرار دیا جاتا۔

بابا جی سکولوں میں گر میو ں کی چھٹیوں کے دوران گائوں کے تمام طالب علموں کی ٹنڈیں کر دیتے اور دلیل یہ دیتے کہ میرے ہاتھ کانپتے ہیں۔قینچی سے بال درست طور پر نہیں کاٹے جائیں گے اور دوسرا مطلب طالب علموں کو خوش کرنے کے لیے نکالتے کہ گرمیوں میں تم لوگوں نے سارا دن نہر میں نہاناہے اور بار بار بال سکھا نے کی زحمت سے بچ جائو گے اور گھر والوں کوبھی خبر نہیں ہو گی اور ہم ان کی اس منطق سے متفق ہو جاتے اور وہ بھی آئے روز گرمیوں میں بال کٹوانے کی ہماری فرمائش سے آزاد ہو جاتے۔

Theft

Theft

ایک مرتبہ بابا جی کی وہ بھینس جس کی ضرب المثل مشہور تھی بد قسمتی سے چوری ہو گئی اور یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کیونکہ واحد بابا جی تھے جو اس وقت ہمارے گائوں والوں کے نزدیک سی این این کا درجہ رکھتے تھے توسارا دن جو بھی حجامت بنوانے آتا اپنی بھینس کی سٹوری شروع کر دیتے اور حجامت مکمل ہونے تک سٹوری ختم ہو جاتی جب بابا جی کی آواز اور کہانی گائوں کے تمام لوگوں تک رسائی حاصل کر چکی تو معتبر افراد نے بابا جی کی بھینس ڈھونڈنے کے لیے تگ و دو شروع کر دی اور اکثر لوگوں کے دلوں میں یہ خوف تھا کہ جیسے جیسے بابا جی کی بھینس کی سٹوری زبانِ زدِ عام ہوتی جائے گی اس سے ہمارے گائوں کی عزت اور عظمت پر انگلیاں اُٹھیں گی کہ جو لوگ اپنے نائی کی بھینس بر آمد نہیں کروا سکے وہ پورے گائوں کی ایڈمنسٹریشن کس طرح سنبھالیں گے۔

جاسوسوں اور کھوجیوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہوئے بابا جی کی بھینس ڈھونڈ نکالی جبکہ چور خاندانی اور افرادی قوت کے اعتبار سے تگڑے تھے۔ بہر حال بابا جی کی بھینس کی بر آمدگی کے لیے مختلف تجاویز زیر غور آنے لگیں۔ ایجنسیوں نے اپنے اپنے پتے استعمال کرنے شروع کئے۔بابا جی کاایک دوست اور ہمراز ایک دن اپنی حجامت بنوانے کے لیے آیا تو بابا جی بجائے تھڑے کے اُس کو چپکے سے اپنے گھر لے گئے چارپائی پر بٹھایا اور ان کی حجامت بنانے لگے اس دوران بھینس کی برآمدگی بھی زیر بحث آ گئی۔

بابا جی کے دوست نے ان سے کہا کہ گائوں میں تین چودھراہٹیں ہیں ایک ایک کر کے بتایا گیا کہ گائوں کے نمبر داروں سے فیصلہ کروا لیتے ہیں بابا جی نے بات سنی اور بولے میں اپنا فیصلہ اُدھر سے نہیں کروائوں گا دوست بزرگ نے کہا کیوں! بابا جی نے کہا کہ آج تک وہاں سے جتنے فیصلے صادر ہوئے ہیں ان سے ہمیشہ چوروں کو ریلیف ملاہے۔دوست بزرگ نے کہا کہ فیصلہ گائوں کے سابقہ چیئرمین کے پاس لے جاتے ہیں بابا جی گویاہوئے جی نہیں، وہ فیصلہ تو ٹھیک کرتے ہیں مگر فیصلے پرعمل درآمد کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور چوروں کی تکنیکی موشگافیوں کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ دوست بزرگ نے کہا کہ گائوں کا صوبیدار جس نے دوسری جنگ عظیم لڑ رکھی ہے۔

PTI

PTI

وہ بھی تو دبنگ چوھدری ہے بابا جی فوراً بولے بالکل ٹھیک وہ فیصلہ بھی میرٹ پر کرتا ہے اور ڈنڈے سے عمل درآمد بھی کرواتا ہے مگر بابا جی ذرا خاموش ہوئے اور بولے زبان کا کڑوا اور مزاج کا سخت ہے اور اس طرح بابا جی نے گائوں کی چودھرائٹوں پر عدم اعتماد کر دیا اور کسی معجزے کا انتطار کرنے لگے۔ اب آتے ہیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف جنہوں نے بقول انکے بذریعہ پانامہ پیپرز حکمرانوں کی چوری پکڑ لی ہے اور اس کی برآمدگی کروانے میں دیوانہ وار لگے ہوئے ہیں مگر بر آمدگی کیلئے وہ کسی نمبر دار ،چیئر مین اور صوبیدار پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ملک میں رائج قوانین اور ادارون پر اعتماد توکجا بد اعتمادی اور براہ راست الزام تراشی انہوں نے اپنا روز مرہ کا معمول بنا لیا ہے ۔

عمران خان کو اپنے ملک اور اس کے اداروں پر اعتماد کرتا ہو گا جو کہ جمہوری معاشروں میں ضروری ہے،اگر ان کو اعتبار نہیں تو کپتان یاد رکھیں پانامہ لیکس کی چوری جیسے معاملات کا فیصلہ صرف اور صرف دنیا کا ایک واحد غیر جانبدار ادارہ ہی کر سکتا ہے اور وہ ہے انسان کے اندر اس کا ضمیر جس کی اخلاقیات جاگ جائے تو فیصلہ کرنے میں ذرّہ بھر تا خیر نہیں کرتا اور اس سلسلہ میں اقوام متحدہ ضمیر کے جاگنے کا عالمی دن منانے کا اعلان کرکے کپتان کی مدد کر سکتی ہے ورنہ 2 نومبر کو کچھ نہیں ہونے والا، اور اس ایونٹ میں بھی عمران خان ہار جائیں گے اور پانامہ لیکس والوں کی طاقتور جمہوریت جیت جائے گی اور پورا ملک ہیجانی کیفیت سے باہر نکل آئے گا۔

Chaudhry Ghulam Abbas Ghaus

Chaudhry Ghulam Abbas Ghaus

تحریر:چوہدری غلام عباس غوث