تحریر : محمد اشفاق راجہ قوم کے نام اپنے خطاب میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم نوازشریف سے ایک بار پھر مطالبہ کردیا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفا دیدیں کیونکہ اب اْن کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ وزیراعظم رہ سکیں۔ انہوں نے وزیراعظم سے یہ مطالبہ 2014ء کے ماہ اگست میں بھی کیا تھا، اس وقت مطالبے کی بنیاد یہ تھی کہ وہ دھاندلی سے الیکشن جیتے، اب دھاندلی پس منظر میں چلی گئی اور پانامہ لیکس سامنے آگئیں۔ وہ یہ مطالبہ لے کر 13 اگست کو ایک جلوس کی صورت میں لاہور سے روانہ ہوئے اور اسلام آباد میں جاکر دھرنا دے دیا۔ ان کا خیال تھا، خیال کیا انہیں یقین تھا کہ چند دنوں کے اندر اندر وزیراعظم کا استعفا ان کے ہاتھوں میں ہوگا۔ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ جونہی وزیراعظم نے استعفا دیا۔
وزارت عظمیٰ کا تاج ان کے سر پر سج جائے گا، کیسے؟ یہ مخدوم جاوید ہاشمی نے بتا دیا تھا۔ ان کے دھرنے کا پہلا پڑاؤ شاہراہ کشمیر پر تھا، وہیں کہیں ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی دھرنا دیا ہوا تھا۔ شروع شروع میں دن میں کئی مرتبہ دونوں رہنما سٹیج پر تشریف لاتے، جوشیلی تقریریں کرتے، لوگوں کو گرماتے اور رخصت ہو جاتے، دھرنے والوں میں جوش و خروش بھی تھا، وقت پر کھانا بھی آتا تھا۔
بلکہ اسے من و سلویٰ کہنا چاہئے کیونکہ اول اول تو اندازہ نہیں تھا کہ اتنی وافر مقدار میں کھانا کہاں سے آتا ہے۔ چند دن تک یہ دھرنا شاہراہ کشمیر پر رہا اور پھر ایک رات اچانک ڈی چوک پر منتقل ہوگیا۔ اس مقام پر بھی چند دن گزرے تھے کہ دونوں رہنماؤں نے اپنا دھرنا وزیراعظم ہاؤس کے دروازے پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ شرکاء آگے بڑھ گئے اور وزیراعظم ہاؤس کو جانے والی سڑک روک دی۔ اس رات کی صبح کو دھرنے والوں کی ایک ٹولی پی ٹی وی کی عمارت میں گھس گئی اور جاکر نشریات بند کرا دیں جو شاید آدھ پون گھنٹے کیلئے بند رہیں۔
Nawaz Sharif
یہی وہ موقع تھا جب یہ بھی کہا گیا کہ اب بھی اگر وزیراعظم نے استعفا نہ دیا تو انہیں گھسیٹ کر وزیراعظم ہاؤس سے باہر نکال دیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ آدھی کامیابی مل گئی ہے باقی آدھی بھی چند گھنٹوں میں ملنے والی ہے۔ عین اس موقع پر مخدوم جاوید ہاشمی نے بعض دھماکہ خیز انکشافات کئے جس سے سارا منصوبہ طشت از بام ہوگیا اور یوں ایک دھرنا 76 دن بعد اور دوسرا 126 دن بعد بغیر کچھ حاصل کئے اپنے انجام کو پہنچا۔ جاتے جاتے ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے مریدوں کو تسلی دے گئے کہ ابھی اللہ تعالیٰ کو نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ منظور نہیں ہے، یہ بات انہیں دھرنے کی ناکامی کے بعد معلوم ہوئی۔
عمران خان کا استعفے کا مطالبہ تو پرانا ہے، جو دہرایا گیا ہے لیکن اب کی بار احتجاج کا مقام ڈی چوک نہیں رائے ونڈ رکھا گیا ہے۔ 24 اپریل کو تحریک انصاف کا یوم تاسیس اسلام آباد میں منایا جا رہاہے اس موقع پر عمران خان اسلام آباد میں جلسہ کرنے پر مصر ہیں۔ اس جلسے میں رائیونڈ دھرنے کی تفصیلات طے ہوں گی لیکن اسلام آباد ہی کیوں؟ بعض سیاسی مبصرین کا تو کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی بنیاد تو لاہور میں رکھی گئی تھی، عام طور پر سیاسی جماعتیں اسی شہر میں اپنا یوم تاسیس مناتی ہیں جہاں ان کی بنیاد رکھی گئی ہو لیکن یہ عمران خان کی مرضی ہے کہ وہ جہاں چاہے جلسہ کریں۔
اصل سوال یہ ہے کہ انہوں نے استعفے کا جو مطالبہ کیا ہے کیا وہ پورا ہوگا؟ ویسے بکیوں نے تو جواریوں کو مصروف رکھنے کیلئے ”تیسرے استعفے” کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔ یوکرائن میں دوسرا استعفا آچکا اس لیے بکیوں کے وارے نیارے ہیں۔ کہیں عمران خان بھی ان بکیوں کے جھانسے میں تو نہیں آگئے؟ بکی تو پس منظر میں ہیں، عمران خان میدان عمل میں ہیں۔کل تک عمران خان پاناما لیکس کی شعیب سڈل سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن کسی بھی جماعت نے ان کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کی۔ اس لیے قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔
Political Parties
لیکن یہ کمیشن آخر کس لیے؟ اگر تو کمیشن اس لیے بنانا ہے کہ جو الزامات سامنے آئے ہیں ان کی تحقیقات کی جائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب آپ کسی الزام کی تصدیق سے پہلے ہی کسی تحقیق کے بغیر وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پھر کمیشن کا قیام تو سعی لاحاصل ہے۔ جس مقصد کیلئے کمیشن بنایا جانا ہے وہ پہلے ہی پورا ہو جائے تو پھر کمیشن کس لئے؟ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ استعفے کا مطالبہ تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اس مطالبے کی حمایت نہیں کرتی۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے لیکن وہ بھی اس مطالبے کے حامی نہیں ہیں۔ البتہ قمر زمان کائرہ نے عمران خان کے مطالبات کی حمایت کردی ہے۔ ایک طرف عمران خان قوم سے خطاب کے دوان وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے تھے تو دوسری طرف ایک زمانے میں ان کے دست راست رہنے والے شاہ محمود قریشی لاہور میں پارٹی کنونشن سے خطاب کے دوران اپنی پارٹی کے دو رہنماؤں چودھری سرور اور جہانگیر ترین پر برس رہے تھے۔ چودھری سرور انٹرا پارٹی الیکشن میں تحریک انصاف پنجاب کی صدارت کے امیدوار ہیں، عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں چاہتے ہیں کہ پارٹی الیکشن میں چودھری سرور پنجاب کے صدر منتخب ہو جائیں۔
بلکہ اس مقصد کیلئے جہانگیر ترین تو پارٹی کے اندر لابنگ کررہے ہیں اور انہوں نے ایک یونٹی گروپ بھی بنایا ہوا ہے جسے شاہ محمود قریشی پارٹی میں اختلافات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے شاہ محمود کو یقین ہوگیا ہے کہ پنجاب کی صدارت پر ان کا حمایت یافتہ امیدوار (شفقت محمود) نہیں جیت سکے گا، اسی لیے انہوں نے کہا کہ وہ چودھری سرور اور جہانگیر ترین سے پارٹی ٹکٹ نہیں مانگیں گے اور اگر ایسا کرنا پڑا تو سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیں گے۔ شاہ محمود سیاست کو خیرباد کہتے ہیں یا نہیں لیکن اتنی بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ان کی پارٹی کے اندر اختلافات کی دراڑیں بڑی وسیع ہیں اور عمران خان کے قوم کے نام خطاب والے دن ہی کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ ایسے لگتا ہے 2014ء کے دھرنے میں اگر مخدوم جاوید ہاشمی تحریک انصاف کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تو اب کی بار شاہ محمود قریشی داغ مفارقت دینے کیلئے تیار ہیں۔ وہ پارٹی نہیں بھی چھوڑتے تو پارٹی کے اندر اب ان کی پہلے والی پوزیشن نہیں ہوگی۔