لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ہندوستان بھر کے مسلمان رہنما 23 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پرمسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔قوموں کی زندگی میں نظریات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔دنیا کا ہر ملک کسی نے کسی نظریے کی بنا پر وجود میں آیا ہے۔
بقول علامہ اقبال مشرق و مغرب نے سِکھایا ہے مجھے ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر دین ہو، فلسفہ ہو، فَقر ہو، سُلطانی ہو ہوتے ہیں پُختہ عقائد کی بِنا پر تعمیر حرف اُس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں ہو گیا پُختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!
پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا۔ نظریہ پہلے موجود تھا ملک بعد میں معرض وجود میں آیا۔ گویا پاکستان کا جغرافیہ اس کی تاریخ کا مرہون منت ہے۔جو قومیں اپنا نظریہ فراموش کر دیتی ہیں ان کا جغرافیہ اسے فراموش کر دیتا ہے۔ اس لئے جغرافیے کی حفاظت کے لئے نظریے کو زندہ رکھنا ناگزیر ہیاگر مسلمانان پاک و ہندکی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور ان عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جنہوں نے مسلمانوں کے کلچر اور ذہنی ساخت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تو ان میں اسلام کا کردار سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔بارہویں صدی سے لے کر بیسیویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کی قیادت علمائے کرام کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ 1192ـ93 میں قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں پہلی مسلم حکومت کی بنیاد رکھی اور یہ سلسلہ انگریزوں کی 1857 میں بالادستی اور حکومت تک جاری و ساری رہا۔
مسلمانوں کے اس آٹھ سو سالہ دور کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان ایک تصور کی پیداوار تھا اور دو قومی نظریہ اس آیڈیالوجی کا اہم ترین حصہ تھا جب کہ وہ تصور محض دو قومی نظریہ تک محدود نہ تھا۔ اس تصور کا پہلا حصہ دو قومی نظریہ تھا جو ایک حقیقت ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا تھا۔ جس میں مسلمان آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔ وہ ملکی وسائل کے مالک ہوں اور انہیں اپنی ترقی خوشحالی اور بہترین مستقبل کے لئے استعمال کر سکیں۔۔
1934ـ35میں انگلستان سے واپسی پر جب قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بِیڑ ااٹھایا تو اس وقت مسلم لیگ ایک بے جان سیاسی قوت بن چکی تھی جس پر وڈیرے، جاگیردار، گدی نشین اور کمزور سیاسی شخصیات چھائی ہوئی تھیں۔ مسلم لیگ کے تن مردہ میں جان اس وقت پڑنا شروع ہوئی جب انتخابات کے بعد کانگریس نے 1937 میں چھ اکثریتی صوبوں میں اپنی حکومتیں بنائیں اور مسلمانوں نے ڈیڑھ برس تک ہندو راج کا مزہ چکھا تو ان کی آنکھیں کھلیں۔ کانگریسی دور حکومت میں نہ صرف مسلمانوں پر ملازمتوں اور زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بند کر دیئے گئے بلکہ سکولوں میں مسلمان دشمن ترانہ ‘بندے ماترم’ بھی لازمی قرار دے دیا گیا اور گاندھی جی کے بت کی پرارتھنا کا حکم بھی جاری کر دیا گیا۔مسلم لیگ صحیح معنوں میں عوامی تحریک اس وقت بنی جب مسلم لیگ نے مارچ 1940میں قرارداد لاہور (پاکستان) منظور کر کے ہندوستان میں بھی پھیلے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کر دی۔
اجلاس میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان عوام نے شرکت کی جو کہ ایک سیاسی کرامت تھی۔قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد ان کا سارا زور ہی دوقومی نظریے پر تھا اور وہ مسلسل مسلمان عوام کو بڑی دردمندی سے یہ سمجھانے اور باور کرانے کی کوششیں کرتے رہے کہ ہم اس لئے مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد مملکت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ مسلمان اپنے مذہب، کلچر، روایات اور انداز کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے پیش نظر مسلمانوں کے معاشی، اقتصادی اور معاشرتی مفادات بھی تھے اس لئے علامہ اقبال مسلمانوں کی شخصیت کی مکمل نشوونما کے لئے ایک آزادوطن کا قیام ضروری سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب مکمل نشوونما کی بات کی جاتی ہے تو اس میں معاشی، سیاسی، فکری، تعلیمی اور مذہبی تمام عوامل شامل ہوتے ہیں۔
چنانچہ اسلام پاکستان کے خمیر اور باطن میں شامل نظر آتا ہے اور پاکستان کی بنیاد کا مؤثر ترین محرک دکھائی دیتا اگر قائداعظم نے اسلام کا نام نہ لیا ہوتا تو وہ نہ کبھی مسلمانوں کی اکثریت کے لیڈر بنتے نہ 1945ـ46 کے انتخابات میں مثالی فتح حاصل کرتے اور نہ ہی پاکستان بنتا۔ اس سے قائداعظم کا کوئی ذاتی مفاد ہر گز وابستہ نہیں تھا۔ وہ خلوص نیت سے بات کرتے تھے اور انہوں نے برداشت، مذہبی رواداری، عفو و درگزر، حق گوئی، قانون کا احترام اور انصاف کے جن اصولوں پر عمل پیرا رہنے کا درس دیا وہ اسلام کے بنیادی اصول ہیں اور نبی کریمۖ ان کی عملی مثال تھیاگر قائداعظم کی تقاریر پڑھیں تو ان میں پاکستان کا ایک واضح تصور ملتا ہے اور ایک ایسا خواب نظر آتا ہے جو آج بھی تشن? تکمیل ہے اور جسے منزل کے طور پر ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
نظریہ پاکستان صرف تاریخ تک محدود نہیں ہے۔کیونکہ آزاد وطن کا قیام اس کا فقط پہلا حصہ تھا جب کہ پاکستان کے قیام کے مقاصد اس کا ناگزیر اور دوسرا نظریہ پاکستان کی ترویج حکومت کا فرض ہے اور اسے نصاب کا حصہ بنانا حکومت پر لازم ہے۔ تصور پاکستان کے شعور کو زندہ رکھنے اور لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال بھی ضروری ہے۔14اگست، 23مارچ، 25دسمبر جیسے قومی ایام پر نظریہ پاکستان کی نشرواشاعت ہمارا قومی فریضہ ہے جسے ہمارا میڈیا پوری طرح نہیں نبھا رہا۔ اپنے ملک کی نظریاتی اساس کو مضبوط بنا کر ہی قومی اتحاد اور ملکی استحکام کے مقاصد پورے کئے جا سکتے ہیں۔