بکریوں کے جھرمٹ میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دھول اڑاتے بچے، گلی کے کونوں پر بنی ہوئی گندے پانی کی نالیوں کے اوپر پاؤں لہرا لہرا کر نا جانے ایک دوسرے سے کس چیز کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں ، گلی کے کونے پر قلفی والا، سموسے والا، سبزی والا جن کے اردگرد بہت سے بچے بچیاں ایک دوسرے کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارتے ہوئے مزہ لے رہے ہوتے ہیں، گھر وں کے دروازوں کی اوڑھ سے جھانکتی ہوئی عورتیں، ایسے مناظر کسی بھی پسماندہ علاقے، گاؤں اور قصبے میں آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں ،ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کے کئی رنگ ایک جگہ پر سمٹ گئے ہوں۔
غربت کی بہترین مثالیں جھونپڑیوں اور گاؤں کے پسماندہ علاقوں میں دیکھی جاسکتی ہیں جہاں لوگ وسائل کے فقدان میں مبتلا اپنی ہی دنیا میں مست ہوتے ہیں ، غربت بھی ریل کی پٹڑی کی مانند ہوتی ہے جس میں شاذونادر ہی خم آتا ہے یہ اپنی ہی ڈگر پر چلتی رہتی ہے ، اور نسل در نسل انسانوں کو مفلوج بنائے رکھتی ہے ،مفلسی ایک مرتبہ جس گھر میں داخل ہوجائے پھربمشکل واپسی کا راستہ دیکھتی ہے ،غریب کی بھی بھلا کوئی زندگی ہے،آنکھ کھولتے ہی تنگدستی مقدر بنتی ہے اور اسی کھینچا تانی کی چادر میں ساری عمر گزر جاتی ہے۔
قابل ترس ہیں مفلسی کے ہاتھوں مجبور لوگ جو اپنی حالت بدلنا بھی چاہیں تو اپنی قسمت سے نہیں لڑ سکتے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش دراصل وسائل کی مرہون منت ہے اور غریب کو نہ تو وہ وسائل میسر ہیں اور نہ زندگی میں آگے بڑھنے کی چاہ ہے، یہی وجہ ہے کہ غریب لوگ اپنی نسلیں انہی کچے مکانوں اور جھونپڑیوں کے نام کردیتے ہیں ،غریب اور پسماندہ علاقوں سے ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کسی نے اپنے حالات سے مقابلہ کیا ہو اور ترقی کرکے کہا ں سے کہاں پہنچ گیا ہواور اپنے آنے والی نسلیں سد ھار دی ہوں۔
غربت زدہ علاقوں میں دھول مٹی سے اٹے ہوئے بالوں والے بچے گھروں کی حدود سے باہر جھرمٹ بنائے ہوئے ہر پل دیکھے جاسکتے ہیں ، پوش علاقوں کی طرح غریب لوگ اپنی اپنی صابن دانیوں میں قید نہیں ہوتے بلکہ اکثر گھر وں کی چار دیواریوں کی قید سے آزاد زندگی کی دھوپ چھاؤں کا مزہ لیتے ہیں،دھوپ چھاؤں کے ملے جلے اثرات او ر اکثر نہر کے پانی میں بار ہا نہا نے کی وجہ سے ان بچوں کے بالوں میں سنہری رنگ کے کئی شیڈز نمایاں ہوتے ہیں، جوتوں کی قید سے آزادپاؤں ، رنگ برنگے پرانے کپڑے بدن پر پہنے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے حال میں اس قدر مست ہوتے ہیں جیسے دنیا میں ان سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہ ہو۔
Economy
ملک میں کیا چل رہا ہے، کون وزیراعظم ہے توکون صدر ، کون سے ملک کی سالمیت کو کس سے خطرہ ہے ، سیاست معیشت بجلی پانی کی پریشانیوں سے آزاد غریب لوگ اپنی دنیا میں بہت خوش نظر آتے ہیں، گھروں کے دروازے جن میں سے اکثر و بیشتر کھلے ہوتے ہیں ا ور زیادہ تر کے آگے ٹاٹ لگا کر پردے کا سامان کیا ہوتا ہے ، جن میں سے گھر کی خواتین منہ پر کپڑا رکھ کرگاہے بگاہے باہر جھانک کر ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے ہوتی ہیں ، خواتین گھرکی کچی دیواروں کے ساتھ ساتھ اونچی پیڑھیاں رکھ کر ایک دوسرے کے گھروں میں جھانک کرخوش گپیاں لگاتی ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جھونپڑیوں اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگ پریشانیوں کے چنگل میں اس حد تک قید نظر نہیں آتے جس میں آجکل خوشحال لوگ ہزاروں وسائل ہونے کے باوجود گرفتار رہتے ہیں، غریب کے پاس وسائل نہیں، بعض اوقات پیٹ بھرنے کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں مگر مانگ تانگ کر وہ اپنا سامان کر ہی لیتے ہیں اور پھر ان کے چہروں پر وہی مسکراہٹیں لوٹ آتی ہیں ،شاید وسائل سے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتیں زندگی کا سکون نہیں خریدا جاسکتا۔
چہروں کی کھلتی ہوئی مسکراہٹیں دیکھ کر میرے ذہن میں سوال ابھرا کہ کیا وسائل خوشیوں کے ضامن ہیں ؟ایک طرف دنیا سے بے خبر یہ ان پڑھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ہی دنیا بسا رکھی ہے ، کھل کے ہنستے مسکراتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں تو دوسری طرف شہروں میں رہنے والے اور خوشحال لوگ ہیں جنہیں سکون کے علاوہ سب میسر ہے۔
اگر وسائل خوشیوں کے ضامن ہوتے تو امیرلوگ سب سے زیادہ خوش ہوتے مگر ایسا نہیں ہے ، موسم،بجلی،پانی،سیاست روزگار ایسی ہزاروں فکریں جو اندر ہی اندر انہیں کھا رہی ہیں ،کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں ، بے حسی عروج پر ہے ، کون مر رہا ہے کون جی رہا ہے، بیمار ی میں مبتلا ہے، ضرورت مند ہے ،کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں ،وسائل ہونے کے باوجود سکون نہیں شاید وسائل ہونا بھی مزید پریشانیوں کو جنم دیتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرمگوں رہتا ہے۔
ہر وقت آگے بڑھنے کی خو اہش انسان کو کسی پل کا چین نہیں لینے دیتی، غریب کے پاس نہ تو وسائل ہیں نہ آگے بڑھنے کی سوچ ہے او نہ ر کوئی ایسی جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ اپنے لیے ترقی کے راستے بنا لے اور اپنی حالت بدل لے یہی وجہ ہے کہ غریب لوگ امیر اور خوشحال لوگوں کے برعکس اپنی حالت بدلنے کا سوچتے بھی نہیں اور اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں اور اپنی نسلیں غربت کے نام کر دیتے ہیں۔