جہاں کسی ڈیل یاڈھیل کے نتیجہ میں اقتدار کی باگ ڈور کسی منتقم مزاج اور نااہل شخص کے ہاتھوں میں آ جائے وہاں ریاستی نظام کا دھڑام سے زمین بوس ہونا جبکہ” ٹیک آف” کررہے قومی ادارے پی آئی اے کا اچانک” گرائونڈ” ہوجانا اٹل تھا۔ اگرکسی فردسے کوئی غلطی سرزدہوجائے تووہ خودیااس کاخاندان نقصان اٹھاتا ہے لیکن حکمرانوں کی ہٹ دھرمی،ان کے متنازعہ فیصلے اورعاقبت نااندیشانہ اقدامات کاخمیازہ قوم کوبھگتنا پڑتا ہے۔راقم کے نزدیک جمہوریت ایسا نظام ہے جہاں ملک وقوم کی قسمت کے فیصلے” بردبار” نہیں ”بزدار” کرتے ہیں۔اس جمہوریت نے مسلمانوں سے ان کی حمیت اورمخلص ومدبر قیادت چھین لی ۔کوئی مانے یانہ مانے اسلام اوراہل اسلام کیلئے نظام خلافت میں ہی عافیت اورعروج ہے ۔ہمارے ہاں رائج نظام انتخاب کااحتساب سے کوئی واسطہ نہیں ہے،چور “چمک “کے بل پرباآسانی منتخب ہوجاتے ہیں۔اس جمہوری نظام میںووٹر”برین ”نہیں ”بریانی ”کی بنیادپرووٹ دیتاہے۔عمران خان نے اقتدار کیلئے جس نظام کی تبدیلی کانعرہ لگایااب وہ اپنے اقتدار کے دوام کیلئے اس نظام کوبچارہے ہیں۔عمران خان نے وزارت عظمیٰ کواپنی منزل سمجھ لیا حالانکہ ان کا سیاسی سفر دوسال قبل شروع ہوا ہے۔لگتا ہے عمران خان آئندہ انتخابی سیاست سے توبہ کرچکے ہیں ورنہ موصوف اداروں میں جوبگاڑ پیداکررہے ہیں وہ ایساہرگز نہ کرتے۔تبدیلی سرکار نے پی آئی اے اور پولیس سمیت وفاقی وصوبائی اداروں کاحلیہ بگاڑدیا ہے ۔تبدیلی کے نام پرتبادلوں کاسونامی اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جائے گا۔بیسیوںمشیروں کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان کوسمجھایانہیںجاسکتا ۔کپتان مسلسل اپنے اقتدار پرخودکش حملے کررہے ہیں،پرویزمشرف سے باوردی آمر نے بھی قومی وصوبائی اداروں میں اس طرح مداخلت نہیں کی تھی جس طرح عمران خان کررہے ہیں۔اداروں میں شکست وریخت بدترین اوربیجا سیاسی مداخلت کاشاخسانہ ہے ۔میدان کرکٹ اورمیدان سیاست کا آل رائونڈر ہونے میں زمین آسمان کافرق ہے ۔اگرعمران خان کو بدانتظامی ،من مانی اوراداروں کے ساتھ چھیڑخانی سے نہ روکاگیا تو پاکستان کے کندھوں پربیرونی قرض موذی مرض کی صورت اختیار کرجائے گا۔
پاکستان میں” ستمبر” عام پاکستانیوں کیلئے زیادہ” ستمگر”بن کرآیاہے ،اگر اہل اقتدار کی آمرانہ روش نہ بدلی توہوسکتا ہے ہمارے ملک میں نومبر کے بعددسمبر نہیں بلکہ ” سرنڈر” کامہینہ آ ئے۔آج جولوگ” زور”میں ہیں وہ اچانک” زیر”بھی ہوسکتے ہیں۔ملک سے” بدعنوانی”،”ناانصافی ”،”وی آئی پی کلچر”اور”اقرباء پروری” ختم کرنے کی بنیاد پراقتدارمیں آنیوالی جماعت نے بے یقینی ،بے چینی، بے سکونی ، بدامنی اور بدانتظامی کی انتہاکردی۔کنٹینر والی پی ٹی آئی جس روزایوان اقتدار میں آئی بلکہ سمائی اُسی روز اُس کے اصول بدل گئے تھے ۔بیرون ملک کپتان کی ”مہمان ”نوازی کرنیوالے آج سر سے پائوں تک اقتدارمیں شریک اور ”مہان ”بنے ہوئے ہیں،اب ان کے” اشاروں ” پر”اداروں ”میں بہت کچھ بدل جاتا ہے ۔ ارباب اقتدار کے ناکام تجربات سے عام آدمی کی زندگی دن بدن دشوار بلکہ بدسے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے ۔ملک بھر میںتبدیلی سرکار کی” ناکامی” اور”بدنامی ”کے قصے زبان زدعام ہیں۔پی ٹی آئی کی قیادت کا خود کوتبدیل کرنے کی بجائے دھڑادھڑ تبادلے کرنے پرزور ہے اوریہ لوگ ”زر” کیلئے ”زور” لگاتے ہیں۔جہاں سیاسی وسرکاری عہدے نیلام ہوں وہاں پائیدارامن اورانصاف کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔حکمران ٹولے کے ساتھ نرمی اورانہیں مزید مہلت دینے کی غلطی ریاست اورمعیشت کیلئے انتہائی مہلک ہو سکتی ہے۔مادروطن کی آزادعدلیہ عام آدمی کاماتم سنتے ہوئے انصاف کی دیوی کے ہاتھوںاس کی اشک شوئی یقینی بنائے کیونکہ اگرعوام کی محرومیوںکابوجھ ان کی قوت برداشت سے زیادہ ہوگیا توپھراشرافیہ کوپناہ نہیں ملے گی ۔کپتان نے دوبرس میں جونیاپاکستان بنایااس سے ہمارا پراناپاکستان ہزارگنابہتر تھا ۔بلے بازیادرکھیں مسلسل ”ٹلے ”اور چند روندو بچوں کی طرح”روندی ”مار نے سے ان کی” بلے بلے” نہیں ہوگی ۔جس ٹیم کے بلے بازوں نے ”پاورپلے” کے دوران زیادہ رنز نہیں بنائے وہ بعدمیں کیا خاک بنائیں گے۔کپتان نے اب تک جوبھی اوور کھیلے موصوف ان میں ایک بھی ”ماسٹر سٹروک ” کھیلنے میں ناکام رہے۔کپتان کے پاس قائدانہ صلاحیت اور وہ ٹیم نہیں ہے جوگڈگورننس کا”ٹی ٹونٹی ”مقابلہ جیت سکتی ہو۔بیڈگورننس نے تبدیلی اورجیالی سرکار دونوں کی بینڈ بجادی ہے۔پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی والے ریاست کے ساتھ سیاست کررہے ہیں،اگرجیالی سرکار نے شہرقائدڈبویا ہے توتبدیلی سرکار نے لاہور کوڈبونے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
”بلے باز” اور”تیرانداز”مسلسل فائول پلے کررہے ہیں ۔عوام نے کپتان کووزیراعظم منتخب کیا لیکن اب لوگ انہیں ”میراسلطان ” کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔عمران خان نے کئی بار نوازشریف کو”مغل اعظم” کہا اوراب ان کے اندر بھی کسی ”شہنشاہ معظم” کی روح سرائیت کرگئی ہے ۔ عمران خان کوبردباری نہیں بلکہ فرمانبرداری زیادہ پسند ہے ،یقینا وہ اپنے ہرحکم پربزدار کاسرتسلیم خم کرنا بہت پسند کرتے ہیں ورنہ وہ لاہور سمیت پنجاب کیلئے مزیدبزدار تلاش نہ کرتے۔کاش ہمارے وزیراعظم مردم شناس ہوتے اوراپنے اہل ٹیم ممبرزاورپروفیشنل آفیسرز کاان کی اہلیت اورقابلیت کی بنیادپراہم عہدوں پرتقررکرتے مگرافسوس حکمران جماعت میں ”سفارش” اور”سازش ”کادوردورہ ہے۔عمران خان کے متعدد مشیر اس وقت اہم عہدوں پراپنے اپنے وفاداروں کاتقرر کررہے ہیں،انہوں نے اپنے اپنے چہیتوں اورچیتوں پر نوازشات کی انتہاکردی ہے۔عمران خان کے گرد مخصوص مفادپرست عناصر کا ایک طاقتور حصار ہے،اِن کے ہوتے اُن کی سچائی تک رسائی محال ہے ۔پی ٹی آئی کے کچھ لوگ سیاست اورباقی اپنی اپنی جیب گرم کررہے ہیں۔ٹرانسفر پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ ہرعہدے کی قیمت مقررہے۔جس کوبھاری نذرانہ دے کرعہدہ ملتا ہے وہ اپناسرمایہ سودسمیت وصول کرنے میں دیرنہیں لگاتا اوراس کیلئے بیچارے عوام کاخون نچوڑتا ہے۔تبدیلی کے علمبردار کپتان نے بہت تلاش کے بعد ایک بزدارثانی کوسی سی پی اولاہور تعینات کردیا ہے جس کے آنے سے اس وقت ڈسپلن فورس میں شدید بدنظمی اوربددلی کی کیفیت ہے۔جو قابل رشک پروفائل کے حامل ہوتے ہیںان کی زبان نہیں چلتی بلکہ کیپٹن (ر)محمدامین وینس اوربی اے ناصر کی طرح ان کا کام بولتا ہے۔
عمر شیخ توکسی شعبدہ بازسیاستدان کی طرح اپنے حق میں بڑی بڑی ڈینگیں ماررہے ہیں۔سی سی پی اولاہور عمر شیخ نے داتادربار حاضری کے بعد بتادیا انہیں شرپسندعناصر پربرسنا نہیں بلکہ اپنے کمانڈر اور ٹیم ممبرزپر گرجنا زیادہ پسندہے۔موصوف کی طرف سے حالیہ اجلاس میں جس قسم کی سطحی گفتگو کی گئی وہ اس منصب کے شایان شان نہیں جوانہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کی بنیادپردیاگیا ہے۔ عمر شیخ کو لاہورمیں پولیس کے ” انتظامی ”معاملات میں بہتری کی بجائے مسلم لیگ (ن) کیخلاف” انتقامی” اقدامات کاٹاسک ملنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جس طرح سی سی پی اولاہور عمرشیخ نے اپنے سابقہ کمانڈرشعیب دستگیر کی عزت نہیں کی تویقینا لاہورپولیس کے آفیسراوراہلکاربھی اپنے دل سے سی سی پی اولاہور کی تعظیم نہیں کر یں گے کیونکہ انسان نے جوبویاہووہی کاٹتا ہے ۔میں پورے وثوق سے کہتاہوں اگر ایک متنازعہ ڈی آئی جی کی بجائے کسی سینئر اور سنجیدہ ایڈیشنل آئی جی کوسی سی پی اولاہور تعینات کیا جاتا تو سی پی اواورسی سی پی اوآفس کے درمیان تنائویاتصادم کاماحول ہرگز نہ بنتا۔ سی سی پی اولاہورجیسی اہم ترین تقرری کیلئے شعیب دستگیر کواعتماد میں نہ لیا جاناایک المیہ اور بڑاسوالیہ نشان ہے۔ شعیب دستگیر نے جس طرح وزیراعظم اوروزیراعلیٰ پنجاب کے روبرو عمر شیخ کی تقرری پر شدید تحفظات کااظہار کیا اس کے بعد اصولی ،اخلاقی اورقانونی طورپر عمرشیخ کوفوری طورپرہٹا دیناچاہئے تھا۔ کپتان نے انعام غنی کوجو ”انعام” دیا وہ اس کیلئے موزوں اور مستحق نہیں،ان سے زیادہ سینئر،زیرک،قابل اورپروفیشنل لوگ موجود ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے دوراقتدارمیں پی ٹی آئی پولیس کلچر میں تبدیلی کی حامی تھی لیکن اقتدار میں آئی تواناڑیوں کے ایک گروہ نے الٹا پولیس کلچر کاکچومربنادیا ۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی کے نام پر پانچ آئی جی پولیس تبدیل کئے گئے مگر اس میں بہتری کی بجائے مزید ابتری سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ تبدیلی سرکار نے عمر شیخ سے چھٹکارا پانے کی بجائے چندماہ بعد ریٹائرڈہونیوالے شعیب دستگیر کوجس عجلت میںہٹایا اس سے حکمران جماعت کی” ساکھ” پوری طرح” راکھ” کاڈھیر بن گئی اوراگراب تبدیلی سرکار نے عمر شیخ کے دبائوپرلاہور میں چندماہ قبل تعینات ہونیوالے دونوں انتھک اورنیک نام ڈی آئی جی تبدیل کئے تواس کی سیاست کاجنازہ اٹھ جائے گا۔ شعیب دستگیر نے بتادیا منصب انسان کی حمیت، عزت نفس اورخودداری سے زیادہ اہم نہیں ہوتا ، انہوں نے سی سی پی اولاہور کی حالیہ تقرری کے دوران قانون کی دھجیاں بکھیرے جانے پر آبرومندانہ اور جرأتمندانہ انداز اختیار کیا ، بحیثیت آئی جی اِن حالات میں کام جاری رکھنے سے اِنکار اُن کیلئے سرمایہ افتخار بن گیا۔انہوں نے عارضی منصب کوپائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے اپنی عزت بچالی اگروہ ”سمجھوتہ ایکسپریس ”میں سوارہوجاتے تورسوائی ان کامقدر بن جاتی ۔انہیں توجانا ہی تھا ،وہ پانچ ماہ پہلے چلے گئے مگر انہوں نے جاتے جاتے تبدیلی سرکار کاسیاہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔