کراچی (جیوڈیسک) ایم کیو ایم کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ ایک ہفتہ قبل سوموار کو ہی انہوں نے اس ایوان میں ایم کیو ایم کے 5 کارکنوں کے سادہ لباس میں بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں اسلحہ بردار افراد کی جانب سے اغوا کیے جانے سمیت ایم کیو ایم کے درجنوں اغوا اور لاپتہ کارکنوں کی فہرست فراہم کی تھی۔ اس فہرست پر صوبائی وزیر اطلاعات نے ایوان کو بتایا تھا کہ آئی جی سندھ نے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مذکورہ کمیٹی نے اب تک کیا انکوائری کی ہے اور ہمارے اغواء اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے حوالے سے کیا کیا اقدامات کیے گئے؟۔ وہ پیر کو سندھ اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ پولیس اور قانون فافذ کرنے والے ادارے کسی بھی سیاسی کارکن یا شہری کے اغواء میں ملوث نہیں۔ آئی جی سندھ نے ایم کیو ایم کے 5 کارکنوں کے اغواء کی رپورٹ پر ایک کمیٹی بنائی ہے ، جو تمام شواہد اور معلومات کی بنا پر کام کر رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ہے کہ ماضی میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو تباہ کیا گیا ، ضرورت سے زیادہ لوگوں کو اس ادارے میں بھرتی کیا گیا۔
ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر نے کہا کہ کراچی کے ضلع غربی اور وسطی میں خاص طور پر پانی کی قلت ہے۔ کراچی شہر پر ہائیڈرنٹ مافیا کی حکمرانی ہے ۔ شہری مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ واٹر بورڈ کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک موقع پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یہ بھی ہماری حکومت کی پالیسی نہیں ہے کہ لوگ کام کہی اور کریں اور تنخواہیں حکومت سے لیں۔ اس دوران ایم کیو ایم کے ارکان کھڑے ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ وزیر بلدیات توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دینے کی بجائے دوسری باتیں کر رہے ہیں۔ ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔