تحریر : امتیاز علی شاکر: لاہور جمہوری نظام کے اندر عوام کو ریاست کی طاقت سمجھا جاتا ہیں۔ عوام متحد ہو جائیں توان کے راستے کی ہر رکاوٹ خودبخود دور ہوتی چلی جاتی ہے۔عوام کے منتخب حکمران ملکی آئین بناتے اور پھر عملدآمد کرواتے ہیں۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام آج تک ایسے اہل نمائندے منتخب کرنے میں بری طرح ناکام نظرآتے ہیں جو ملک وقوم کی بھلائی کیلئے ایمانداری سے کام کرتے اور ملک کو خوشحالی و ترقی کے راستے پر ڈالتے۔ آئین ،دستور ایسے اصولوں پرمبنی ضابطے کو کہتے ہیں جس پرعمل درآمد کرکے ریاست کے اندرونی وبیرونی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے۔ جو کوئی ان اصولوں کی حدود کو توڑے اسے مجرم قراردے کر سزادی جاتی ہے تاکہ کوئی اندورنی یابیرونی دشمن اپنی سازش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مخلص اور محب وطن قیادت کافرض ہے کہ ریاست کے روشن مستقبل اورعوام کی خوشحالی کومدنظررکھتے ہوئے عدل و انصاف ،وسائل کی منصفانہ تقسیم ،جان ومال ،عزت وآبروکے تحفظ،صحت و تعلیم اور باعزت روزگار جیسی بنیادی ضروریات کی نچلے طبقے تک آسان ترین فراہمی کیلئے دورحاضر کے تقاضوں کی روشنی میں دستورسازی کریں۔پاکستان اسلامی ریاست ہے اس لئے ہمارے ملک میں ہونے والی کوئی بھی قانون سازی دین اسلام کی مخالف نہیں ہو سکتی۔
ایسی باکردار قیادت جواسلام ،ریاست اورعوام کے ساتھ وفاداررہے پرجوشرائط 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 62,63 میں درج ہیں وہ انتہائی مناسب اورضروری ہیں ۔1973ء کے آئین میںجہاں عوام کوبنیادی حقوق کی فراہمی،اسلامی احکامات کے مطابق منصفانہ نظام معاشرت کی ضمانت فراہم کرتا ہے وہاں قیادت کے انتخاب کیلئے بھی خاص معیار مقرر کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62,63کا جائزہ لیا جائے تو اس بات میںکوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ 1973ء کے آئین سازوں کامقصد ملک کو چور وں،ڈاکووں،لٹیروں اورکرپٹ ٹولے کے ناپاک عزائم سے محفوظ اور صاف ستھری قیادت کے ذریعے منصفانہ نظام پر مبنی کرپشن سے پاک فلاحی ریاست بنانا تھا۔بدقسمتی سے حکمران طبقے اورمفاد پرست سیاستدانوں نے ذاتی لالچ اور مفادات کے حصول کی خاطر آئینی ترامیم کی آڑ میں آئین کی سمت تبدیل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔پارلیمنٹ کا کام آئین کی روح کے مطابق قانون سازی کرنا ہے۔جہاں تک آئینی ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیار کا تعلق ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ ایسا کر سکتی ہے پر پارلیمنٹ کا یہ اختیار لامحدود نہیں۔ پارلیمنٹ کسی صورت میں دوتہائی اکثریت کے باوجود کوئی ایسی ترمیم منظور نہیں کرسکتی جو آئین کے بنیادی ڈھانچے یا اس کی روح سے متصادم ہو۔آئین میں بنیادی تبدیلیاں کرنا دستورساز اسمبلی کے دائرہ کار میں ہے۔ جبکہ پارلیمان کے پاس آئین کی پابندی اور اسکے تحفظ کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔جہاں پارلیمنٹ اس عوامی مینڈیٹ سے انحراف کرے عدلیہ درستگی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔آئین کی ایک ایک شق محترم سمجھی جاتی ہے۔ آرٹیکل 62,63 سے روح گردانی آئین سے غداری کے زمرے میں آتی ہے۔الیکشن ایکٹ بل 2017ء میں جس طرح آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف وزری کی گئی وہ ہمارے سامنے ہے۔1973ء کے آئین کے اندریہ بات طے ہوچکی ہے کہ قادیانی غیرمسلم ہیں،انتخابی فہرست کے اندر قادیانیوں کے ناموں کااندارج اقلیت کے ساتھ شمارہوگااوروہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔آئین پاکستان سے روح گردانی کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء میں جس وقت ختم نبوت ۖ کے قانون کوتبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اسی وقت آرٹیکل 62,63 کے بنیادی ڈانچے کوبھی توڑ پھوڑکرایک نااہل شخص کوپارٹی صدر بنانے کی کامیاب کوشش ہوچکی ہے جوانتہائی تشویش ناک ہے۔
ختم نبوت ۖ کے قانون کے ساتھ کی جانے والی چھیڑچھاڑ کی کوشش توعاشقان رسول اللہ ۖ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ناکام بنادی پرافسوس کہ جئے بھٹو کانعرہ لگانے والے بھٹوکے وارثوں نے اپنے ہی قائد کے بنائے آئین کے ساتھ وفانہ کی اورایک نااہل شخص کوپارٹی صدربننے دیا۔انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ماضی سے حال تک کبھی بھی صحیح معنوں میں ان آئینی شقوں کی اہمیت کو محسوس نہیںکیا گیا۔ہمارے حکمران طبقے نے آرٹیکل 62,63 کی پاسداری کی ہوتی توآج پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں کھڑاہوتااورہماری قیادت مبارک باد کی مستحق ہوتی ۔جب قوموں کی سمت درست ہو تو ترقی اورخوشحالی کی عظیم منزلیں قدم چومتی ہیں۔
سترسالہ مسائل سے جان چھڑوانے کیلئے اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی اورہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر ایمانداری پرمبنی فیصلے کرنا ہوں گے۔ اب ہمیں سمجھ لیناچاہیے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیںجن کی وجہ سے ہم خوشحالی اورترقی کی منزلوں سے دورہیں۔ ذاتی مفادات ،تعصب، لالچ اور خوف سے بالا تر ہو کر قومی مفادات وملکی سلامتی ،خوشحالی اورترقی کومدنظررکھتے ہوئے آئین کے بہتراصولوں پرعمل اورجہاں کمزوری محسوس ہووہاں مزید بہتراورمضبوط اقدامات اٹھانے چاہئے۔الیکشن 2018ء کی آمد آمد ہے ۔عوام کے پاس اپنے ووٹ کے ذریعے نااہل اورایسے کرپٹ امیدواروں جوآئین کے آرٹیکل 63.62پرپورانہیں اترتے کوحکومتی ایوانوں سے باہررکھنے کاایک اورموقع آنے والاہے۔ووٹراپنے حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں میں سے بہترین امیدوارکاانتخاب کریں تونظام بہترہوسکتاہے،قبضہ مافیا،منشیات فروش،سود خوروں اوربھتہ مافیاکے ساتھ تعلق رکھنے والوںکومسترد کرنااورایماندار،نیک سیرت اورپڑھے لکھی قیادت کومنتخب کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر: لاہور imtiazali4700@gmail 03134237099