بدقسمتی سے آج تک پاکستان پر جتنے بھی حکمران قابض ہوئے یا مسلط کیے گئے سب اپنی آخرت کو بھول کر دنیاوی عیش وآرام میں کھوئے رہے غریبوں کے خون سے اپنے غیر ملکی بنک اکانٹ بھرتے رہے اور آج حال یہ ہے کہ ملک میں ٹیکسوں کی بھر مار ہو چکی ہے اب ایک غریب سے غریب شخص بھی اس سے محفوظ نہیں ہے ایک ماچس کی ڈبیہ خریدنے والا بھی حکومت کی جیبیں بھر رہا ہے۔
جبکہ ہمار ے حکمران ان سب ٹیکس نما چیزوں سے مبرا ہیں حکمرانوں کی اسی بے حسی کے باعث آج تعلیم امیروں کی لونڈی بن چکی ہے۔ جبکہ غریبوں کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا بس ایک زیور کی طرح خواب ہی بن کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ٹیکس چوروں کے بچے اعلی تعلیم کے لیے امریکہ اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اور غریب کا بچہ آپ کو کسی نہ کسی ہوٹل میں یا ورکشاپ میں چھوٹے کے روپ میں ملے گا۔ حضرت معقل بن یسارسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملہ کا ذمہ دار بنا۔ پھر اس نے انکے لیے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جیسی کہ وہ اپنی ذات کے لیے کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا۔
آج معاشرے میں چائلڈلیبر ناسور کی طرح موجود ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ غربت پسماندگی جہالت بھوک کے علاوہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور بڑھتی ہوئی شرح آبادی جیسی وجوہات ہے پاکستان عالمی کنونشن UNCRC کے معاہدوں پر دستخط بھی کیے اور توثیق بھی کی مگر ا س کے باوجود اس پرآج تک عملدر آمد نہ ہوسکا تشدد اور مشقت سے پاک زندگی ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔
Labor
بچوں سے جبری مشقت لینا خلاف قانون ہی نہیں خلاف شریعت بھی ہے پاکستان میں چائلڈ لیبر کے قوانین تو موجود ہے مگر عملد رآمد نہ ہونے کے باعث جبری مشقت کار وزبروز بڑھنا المیہ ہے۔ بچے غربت کی وجہ سے 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے پرمجبور ہے ان کی اوسط مزدوری 50 روپے ہے انہیں تعلیم حاصل کرنے کاشوق ہے مگر غربت اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث یہ معصوم نونہال جبری مشقت پر مجبور ہے اکثریت بچوں کے والدین بیماریا وفات پاچکے ہیں۔
گھر کی کفالت کے لیے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہے آج جن بچوں کے ہاتھوں میں قلم کتاب ہونی چاہیے انہیں ہاتھوں میں آج بھوک مٹانے کے لیے اوزار تھمادیے گئے وہی ہاتھ آج مزدوری نہ ملنے پر بھیک مانگنے پرمجبور ہیں چارسال سے 14 سال کی عمر کے بچوں میں مزدوری کا رجحان روزبروز بڑھ رہا ہے۔ جوکہ حکومت اور ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے بچے اس گلشن کے وہ پھول ہے جن سے گلشن حیات مہک اٹھتا ہے۔
ان ننھے پھولوں کی حفاظت اور ان کے حقوق تحفظ کے لیے چائلڈلیبر کا خاتمہ ضروری ہے۔ جس کے لیے حکومت کو بچوں کو سرکاری سطح ونجی سطح پر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری نبھائی جائے تو یہی بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر ملک وقوم کا نام روشن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں چار کروڑ بچے چائلڈلیبر کا شکا رہیں۔
جس کے لیے بین الاقوامی سطح پر عالمی کنونشن UNCRC کے معاہدوں کی روشنی میں کنٹرول کیا جانا ازحد ضروری ہے اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ حکومت بھارت کے ساتھ 2 ہزار میگا واٹ بجلی خرید نے کا معاہدہ کررہی ہے۔ جو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگی بھارت کے ہاتھ فروخت کر نے کا عملی معاہدہ ثابت ہو گا، ملک اور قوم کو بچانا ہے تو اس معاہدہ سے قبل دریاں کو بچانے کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل طے کیا۔
Mia Nawaz Sharif
جائے جبکہ پہلے ہی بھارت نے اس ضمن میں امریکی بنکوں سے 500 کھرب روپے قرضہ حاصل کیا ہے۔اب ان ڈیموں کی تعمیر کے لیے کاربن کریڈٹ کا حصول بھی انتہائی آسان ہو جائے گا میا ں نواز شریف صاحب ملک بچانا ہے تو بھارت کے ساتھ بجلی کا یہ معاہدہ ہرگز نہ کیا جائے، چونکہ یہ معاہدہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو تباہ کر دے گا۔
اور یہاں پاک سر زمین پر بھارت کی تھانیداری قائم ہو جائے گی لیکن پاکستان کے عوام کئی سال بعد اس بڑے حادثہ سے آگاہ ہوں گے۔ چنانچہ اس وقت اس بے چاری قوم کے ہاتھ پاں کٹ چکے ہوں گے اب چونکہ ایک بپھرا ہوا سفید ہاتھی عجیب روپ دھار کر پاکستان کے اندر داخل ہو رہا ہے جس سے قومی سلامتی زبردست خطرے میں ہے اب بھی فوج اس معاہدہ کو حساس ترین معاملہ قرار دے دے تو پاکستان اس بڑے حادثہ سے بچ سکتا ہے، قوم کو اندھیروں سے نکالنے کی بجائے غلامی کے اندھے کنویں میں نہ پھینکا جائے۔ تحریر : روہیل اکبر 03466444144