تحریر : میمونہ صدف ہمارے میڈیا پر کچھ نام نہاد صحافی پاکستان میں موجود ہر خرابی کا ذمہ دار پاک فوج کو ٹھہراتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی باتیں کس حد تک درست ہیں یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کچھ حقائق جان لینا ہم سب کے لیے بے انتہا ضروری ہیں ۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی سلامتی صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب اس ملک کی عوام کو اپنی افواج پر مکمل اعتماد ہو اور افواج عوام کی امیدوں پر پورا بھی اتر سکنے کے قابل ہو ۔ ہمارے ملک کی کل آبادی ٢٠ کروڑ ہے جس میں ٦ لاکھ کا تعلق افواج پاکستان سے ہے ۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں میں ٨ لاکھ پولیس ، کم از کم ٢ لاکھ جج ، وکیل اور ان کے معاونین ہیں ۔ نیب اور ایف آئی اے کے ارکان اس سے سو اہیں ۔ ہمارے ملک کا سالانہ بجٹ ٠ ٥ ارب ڈالر پر مشتمل ہے جس میں سے ٧ ارب ڈالر پاک فوج کو ادا کئے جاتے ہیں باقی ٤٣ ارب ڈالر کا بجٹ پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے ۔
پاک فوج بیک وقت ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نبرد آزماء ہے ۔ بیک وقت دہشتگردوں اور غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ پر اکسی جنگ میں مصروف ِعمل یہ افواج ہر سطح پر ملکی مفادات کا دفاع کر رہی ہیں۔ اس کا اندازہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرنپ کی پاکستان اور افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تقریر کے بعد پاکستان حکومت کے ردِ عمل سے کیا جا سکتا ہے ۔ وزیر ِ اعظم پاکستان ہو ں یا وزیر خارجہ کسی کی جانب سے کوئی بیان منظر ِ عام پر نہیں آیا ۔ اگر آیا بھی ہے تو یہ کہ انھیں ڈونلڈ ٹرنپ کے بیان پر تشویش ہے ۔دوسرا بیان یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھر کی حالت درست کرنا ہے ۔ گویا امریکہ کی جانب سے لگائے گے تمام الزامات کو مان کر اب انھی کی مانی جائے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے حکمران اپنے بیانات کے معاملہ میں غیر سنجیدہ رہے ہیں لیکن جب یہ بیانات عالمی سطح پر دئیے جاتے ہیں تو یہ بیانات ہمارے اپنے گلے کا پھندہ بن جاتے ہیں ۔ حالیہ بیانات نے عالمی سطح پر امریکہ اور مغربی ممالک کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان ڈومور کے لیے تیار ہے اور اگر ڈرون حملوں کی رینج بڑھائی جائے گی تو اس کی مذمت ہی کی جائے گی اسے روکا نہیں جائے گا ۔ اس وقت یہ مطالبہ مان لینے کی صورت میں اگلا مطالبہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا ہو گا ۔ اس وقت تمام عالم اور دشمنانِ پاکستان کی نظریں پاکستان کے اٰیٹمی پروگرام پر گڑھی ہیں ۔ سی پیک کی تعمیر پاکستان کی اقتصادیات میں واضع تبدیلی کا پیش خیمہ بننے کا عندیہ دیا ہے ۔ دشمنوں کو سی پیک ، اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تشویش ہے کیونکہ یہی دو پروگرام پاکستان کے شاندار مستقبل کی ضمانت ہیں ۔سی پیک ہی ہے جس کی بدولت پاکستان کئی ملکوں کے تسلط سے باآسانی نکل جانے کی پوزیشن میں آ جائے گا اور یہ فوج ہی ہے جس کی دن رات کی کاوشوں کے بعد گوادر کی بندرگاہ پر کام شروع ہوا۔
واضع رہے ! پاکستان سیاست دانوں نے بنایا تھا لیکن یہ وہ سیاست دان تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں اس ملک کے لیے وقف کر دیں تھیں ۔ آج کے سیاست دان اور نام نہاد جمہوریت کے علم دار وں نے پاکستان کواپنے بیانات کے بل بوتے پر ایک ایسی کمزور ریاست کے طور پر عکس بند کیا ہے جس کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ۔ بلکہ بعض صورتوں میںیہ سیاست دان ملکی سلامتی تک کو دائو پر لگا دیتے ہیں ۔
حکمرانوں کے برعکس ہماری افواج کے سربراہ نے امریکہ کو واضع پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو کسی طور دائو پر نہیں لگایا جائے گا اورافواج ِ پاکستان ہر اس آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو اس ملک کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے گا ۔پاک فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے ۔ پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں پاک فوج مغربی ممالک میں اپنا لوہا منوا چکی ہے ۔ جنرل قمر جاوید نے یہ بھی کہا کہ ہمیں امریکہ کی امداد نہیں چاہیے ۔ انھوں نے امریکہ کو واضع پیغام دیا کہ پاکستان سے طریقے سے گفتگو کی جائے ۔
اب آئیے ! اک فوج کے ذیلی ادارے آئی ایس آئی(انڑسروسز انٹیلی جنس) کی جانب ۔ یہ ادار ہ پاک فوج کے زیر ِ نگرانی اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے ۔ آئی ایس آئی دنیا کی نمبر ون سیکریٹ ایجنسی ہے۔عالمی سطح پر یہ ایجنسی اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بدولت کئی ایجنسیوں کو شکست دے چکی ہے ۔ اس کے ملازمین زیادہ تر افواج ِ پاکستان سے ہیں ۔یہ ادارہ پاکستان کی سلامتی اور اس کے دشمنوں کے لیے دہشت کا نشان ہے ۔پاکستان کے دشمنوں اور پاکستان کو ختم کر دینے خواہش کرنے والوں اور ان کی سازشوں کی کامیابی کے درمیان پاک فوج اور اس کے ذیلی ادارے جیسے آئی ایس آئی اور ایم آئی حائل رہی ہیں ۔ پاکستان میں موجود سیکیورٹی اداروں میں اگر کسی ادارے کی کارکردگی قابلِ قدر ہے تو وہ یہی ادارے ہیں ۔ ان دو اداروں کے علاوہ تمام سیکیورٹی ادارے سویلین حکومت کی زیر ِ نگرانی کام کر رہے ہیں۔دوسرے سیکیورٹی ادارے کتنے فعال ہیں یہ ہم سبھی جانتے ہیں ۔
یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر کراچی میں امن وا مان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے تو رنجرز اور پاک فوج کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد ، اس کے علاوہ شمالی وزیرر ستان ، وانا ، او دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا صفایا اور سرحدی در اندازی کا جواب دینے کے علاوہ سی پیک کی تعمیر اور حفاظت پاک فوج ہی کا کارنامہ ہے۔
نگران وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ، کے غیر سنجیدہ بیانات پاکستان کی عالمی سطح پر حیثیت کو مزید کمزور کر رہے ہیں تو دوسری جانب آئی ایس آئی میں سویلین افسران کی تعداد میں اضاف اس کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ دوسرے سیکیورٹی ادارے بھی پاک فوج کے زیرِ نگرانی کر دئیے جاتے یہاں جو ادارے پاک فوج کے زیر ِ نگرانی چل رہے ہیں ان میں بھی سویلین افسران کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔پہلے اس ادارے میں سویلین افسران کی تعداد اٹھ تھی جیسے اب بڑھا کر پندرہ کر دیا گیا ہے۔
اب آئیے ملک کے اندرونی حالات کی جانب ۔ کوئی بھی علاقہ کسی آسمانی آفت کا شکا ر ہو جائے تو امدادی کاروائیوں میں فوج ایک اہم یہ سچ ہے کہ پاک فوج ذمہ دار ہے لیکن خرابی کی نہیں بلکہ اس کی سلامتی کی۔