ذمہ دار استاد

Teacher

Teacher

تحریر : شاہ بانو میر

“” بچے من کے سچے”” یہ مقولہ آج اُس وقت سچ ثابت ہوا
جب گھر میں آئے بچوں کے شور مچاتے کھیلتے ہوئے ایک گروپ کو
بٹھا کر ان کے سکول سے متعلق کچھ جاننا چاہا
موجودہ مہنگے ترین سکول کا تعلیمی معیار جانچنا چاہتی تھی
اس گروپ میں 8 سے 13 سال تک کے بچے شامل تھے
پرائیویٹ بڑے نامور سکول کے بچے بھی
درمیانے طبقے کے لیے درمیانی فیس والے بھی
اور
محض 20 روپے ماہانہ گورنمنٹ سکول کے بچے بھی تھے
ایک بچہ جو بیمار ہے
اس کے ڈاکٹر نے سکول میں لیٹر بھیجا ہے کہ اس کو بالکل نہ مارا جائے
اس کی آواز میں درد تھا
جب وہ بولا
کہ
مجھے تو مار نہیں پڑتی
مگر
کلاس میں بچوں کو جب استاذہ کرام بیدردی سے بے رحمی سے مارتے ہیں
تو مجھے بہت درد ہوتا ہے
سانحہ ساہیوال کا سفاک رویے کا جواب آج مل گیا
حالیہ ساہیوال سی ٹی ڈی کی کاروائی جس میں دہشت گرد مارے جانے کا دعویٰ تھا
زندہ لوگوں کو اپنے ہی ملک میں دن دیہاڑے سب کے سامنے کس طرح گولیوں سے چھلنی کیا گیا
اس بربریت اور وحشیانہ کاروائی کے پیچھے کون سا سفاک دماغ تھا
وہ ان بچوں نے سکول میں استاذہ کرام کے بے رحم رویوں سے آشکار کر دیا
جس سکول میں ماہانہ 5 ہزار فیس دی جا رہی ہے
3 ہزار رکشے والے کے 2 ہزار اکیڈمی کے
100 روپیہ روزانہ جیب خرچ جو 500 تک بھی ہے
یونیفارم کتابیں کاپیاں دیگر اشیاء اس کے علاوہ ہیں
اتنے مہنگے تعلیمی نظام میں بچے معصومیت سے استادوں کے سفاکانہ انداز بتا رہے ہیں
ایک بچے نے کہا
کہ استاد ان سے ہی اسکیل لیتے ہیں 4 سے 6 اسکیل بچوں سے اکٹھے کیے جاتے ہیں
ر ان کو ٹیپ لگا کر جوڑ کر ہتھیار بنایا جاتا ہے
اور
پھر اس سے ہاتھوں پر اور جسم پر بے رحمی سے مارا جاتا ہے
اگر
بچہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے چھٹی کر لے تو دوسرے دن نہ صرف طنز کیے جاتے ہیں
بلکہ
دھمکیاں دی جاتی ہیں
سال بھر میں استاذہ کرام کیلئے اپنی کارکردگی امتحانات میں جانچنے کا بہترین فارمولہ “”تشدد”” ہے
امتحانات کے نزدیک درسگاہوں کا ماحول عجیب وحشت اور بے حسی کا منظر پیش کرتا ہے
جس میں بچوں کو ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے
“”نتیجہ”” ہر صورت بہترین آنا چاہیے
بد مزاجی کا یہ دور دو مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے
جس میں بچے کو امتحان اور نتیجے کیلئے پہلے سے ذہنی طور پر شل کر دیا جاتا ہے
حالانکہ
استادوں کی خوش مزاجی بچوں کو حوصلہ دیتی ہے
وہ خود ان سے شاباش لینے کیلئے خوب محنت کرتا ہے
تاکہ
اس کے محسن اس سے خوش ہوں
لیکن
محسن نے تنخواہ لینی ہے بچے نے فیس دینی ہے
“”علم “” ایسے نظام میں دیا نہیں جاتا تھوپا جاتا ہے
اخلاص اور نرمی دو ایسے طاقتور ہتھیار ہیں
اگر پاکستان میں استاذہ ان کو مضبوطی سے تھام لیں تو تعلیمی معیار بلند ہو جائے
استاد معاشرتی فرعونیت بچوں پر نہ جھاڑیں
تو یقینی طور پے یہ بچے مار پیٹ کے بغیر بہترین نتائج دے سکتے ہیں
جن سکولز کے یہ بچے ہیں
ان کے معصوم چہروں پے بات کرتے ہوئے وہ خوف میں دیکھ رہی تھی
جو
استاد اور اس کے مولیٰ بخش کے ذکر پر ابھر رہا تھا

“”موجودہ دور میں جب دنیا تعلیمی نظام کو آسان اور دلکش بنا رہی ہے
تا کہ بچے اس سے دور بھاگنے کی بجائے آسانی کے ساتھ اس کو اپنائیں
ایسے میں مصنوعی ترقی کے حامل اس ذہنی اپاہج معاشرے میں سی ٹی ڈی
کے درشت رویے کی اصل بنیاد مجھے سمجھ آگئی “”
بچپن سے جس مار کو بے وجہ کھا کر یہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں
بڑے ہو کر وہ سختی ان کے دل کو نرمی سے خالی کر دیتی ہے
نتیجہ
محرومیوں کا انتقام
ہر طاقتور طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے اطوار سے ظاہر کرتا ہے
سادہ سی مثال دیتی ہوں
میرا بچہ ذہنی طور پر کمزور ہے
حال ہی میں ایک ایسوسی ایشن کی ممبر گھر آئی دو گھنٹے تک رہی
اس نے جاتے ہوئے کہا
“”یہ بچہ اور آپ سب کا اس کے ساتھ سلوک میرے لئے نئی تاریخ ہے
ایسے ذہنی کمزور بچے دوسروں کو بہت مارتے ہیں
کیونکہ
گھر والے ان سے عاجز ہوتے ہیں انہیں ٹھوکروں پر رکھتے ہیں
جواب میں یہ پر تشدد انداز اختیار کرتے ہیں
آپ کے بچے نے دو گھنٹے میں کسی کو ہاتھ نہیں لگایا
وجہ سمجھ آئی
کہ
آپ نے اس پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا تو اسے بھی ہاتھ اٹھانے کا پتہ نہیں ہے “”
غور کیجئے اس بات پر

محترم استاذہ کرام
تعلیمی درسگاہوں میں جب ا نسپیکشن ٹیم آتی ہے تو ذرا سوچیں
آپ وہ تمام کے تمام تشدد کے اوزار چھپا کر سکول کا ماحول آئیڈئیل دکھاتے ہیں
سوچیں
“”یہ جو طالبعلم بیٹھے ہیں جن کے جسم نیل سے بھرے ہوئے ہیں “”
اس تضاد سے آپ کا تاثر کیا ہو گا ان کے ذہنوں پر
اچھے سکول جن میں ایک کلاس کے طالبعلم 25 ہیں
گورنمنٹ سکول جہاں تعداد 60 ہے
استادوں کا رویہ ایک جیسا ہی دکھائی دیا
ایک بچے نے بازو دکھایا جہاں نیل تھا
اس قسم کے نشانات اور بھی ہی اس نے بتایا
استاذہ کرام آپ تو سنت رسولﷺ کی پیروی پر ہیں
وہ معلم بنا کر بھیجے گئے تھے
اور
انہیں رحمت اللعالمین کہا گیا
کیسی پیروی کر رہے ہیں؟
ان بچوں کے معصوم دکھ سن کر ایسے لگا جیسے استاذہ کرام کے معاشی مسائل ذہنی فرسٹریشن
دور کرنے کیلئے
بچوں کی صورت پپٹ دے دیا گیا
کہ
خوب بھڑاس نکالو ان پر
بغیر
مستقبل میں اس مار کے نفسیاتی نقصانات کو سوچتے ہوئے
یہ چند سکولز کا انداز ہے میرے پیارے پاکستان میں
استاذہ کرام
آپ کیا پڑھا رہے ہیں ؟
آپ اپنی زبان کی تیزی سے اپنے ہاتھ کی فراخی سے اس قوم میں ذہنی مایوسی
پھیلا رہے ہیں
آپ جیسے استادوں کے پڑہائے ہوئے یہ شاگرد
جب زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں
تو
وہ تمام تھپڑ وہ تمام مکے اور اسکیلز کے نیل
سی ٹی ڈی جیسے وحشیانہ انداز اختیار کر کے ملک میں خوفناک فضا قائم کرنے کا موجب بنتے ہیں
ہر بچہ امتحانی پرچہ ہے
پرچہ تشدد سے بھی حل ہو سکتا ہے
اور
سیرت رسولﷺ پر عمل پیرا ہو کر بھی شاندار نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں
بچوں کی پاکستان میں والدین استاذہ کرام کے نزدیک کوئی سنجیدہ قدر نہیں ہوتی
کیونکہ
وہ ان پر خرچ کر رہے ہیں لہٰذا بچوں کوحق نہیں دیا جاتا کہ وہ شکایت کریں نہ انہیں غور سے سنا جاتا ہے
نہ ہی ان کے درد کا مداوا کیا جاتا ہے
“”””ان بچوں کا حکومت پاکستان سے پرزور مطالبہ ہے کہ “”””
کہ
حکومت پاکستان ہر اسکول میں اچانک اپنی تحقیقاتی ٹیمیں بھیجے
اور
اچانک جا کر ہر سکول کا اصل نظام اور طریقہ تعلیم کا مطالعہ کرے تو
وہ مطالعہ پاکستان بھول جائیں گے
نمائشی استقبال کے بعد نمائشی دورے مصنوعی ماحول کے عکاس ہیں
پاکستان میں تبدیلی نئی نسل کی بہتر نشو نما اور انہیں عزت دینے سے آ سکتی ہے
مگر
جس ملک میں زبان درازی سیاست کی معراج ہو
اور
مار کٹائی طاقتور کا معیار
وہاں
استاذہ خود اس ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب استاد بنتے ہیں
تو
اپنے استاد کا ڈھایا ہوا قہر اور غضب لاشعور سے شعور میں آجاتا ہے
نتیجہ
درشت رویے مار دھاڑ پر مبنی تعلیم کی وہ تنخواہ لیتے ہیں
بدلے میں انہیں کردار کے طالبعلم نہیں چاہیے
صرف اپنی قابلیت ظاہر کرنے کیلئے اچھے نتائج چاہیے
یہ نتائج ڈنڈے مار کر لیے جائیں یا بید کی نرم ڈھیلی چھڑی سے نیل ڈال کر
انہیں کوئی غرض نہیں
سوچیں
ہم سب انسان ہیں فرشتے نہیں
غلطی کر رہے ہیں تو سدھارتے کیوں نہیں؟
ان بچوں کے چہروں پر غم تھا
کہ
ان کےا ستاذہ انہیں انسان نہیں سمجھتے بے جان پتلا سمجھ کر بے دریغ مارتے ہیں
محترم استاذہ کرام درد مندانہ گزارش ہے
آئیے
تبدیلی کا اصل آغاز آج سے کریں
تعلیمی درسگاہوں میں مار سے نہیں ذرا پیار سے کام لیں
حتمی بات ہے
کہ نہ صرف
ان بچوں کی گھٹن سے پاک آزادانہ ذہنی نشو نما ہوگی جو ان کی تعلیمی کارکردگی بڑہائے گی
بلکہ
استاد کا نام آج جس بیزارگی سے لے رہے ہیں
وہ آپ کی نرمی کے بعد احترام میں بدلے گا
آئیے
تبدیلی کا آغاز مار سے نہیں
ان بچوں سے پیار سے کریں
کامیاب پاکستان منتشر دماغ سے نہیں بلکہ مستحکم دماغ بنے گا
انسانیت کا احترام ملک کے اداروں میں بہتری لائے گا
تب ریاست ماں جیسی بنے گی اور یہ سب استاذہ کرام پر منحصر ہے
سانحہ ساہیوال جیسے وحشیانہ اقدامات کی حقیقی روک تھام صرف
استاذہ کرام آپ کے انداز بدلنے سے ممکن ہے
وگرنہ
آپ کی درشتگی اور ظلم ایسے ہی طالبعلموں کی کھیپ ہر سال نکالے گا
جو
ایک کے بعد ایک سانحہ جنم دیتے چلے جائیں گے
ہمیں اپنی ذہنی جہالت کو درست علم سے ختم کرنا ہوگا
اور
ہر بار کی طرح “”مہر”” کامیابی کی صرف
قرآن و حدیث ہے
دنیاوی ڈگریوں نے مقابلہ حسد نفرت ذہنی کشمکش بڑھا کر آج کا استاد کل کے استاد سے
بہت کمزور کر دیا
ایسے میں جس نے جب قرآن کو ترجمہ سے پڑھ لیا
تو ذات صفات میں وہ تبدیلیاں رونما ہوئیں
کہ
جنہوں نے 22 ہزار کلو میٹر تک کا علاقہ فتح کر کے قیامت تک خود کو تاریخ میں محفوظ کر دیا
ان استادوں کی تربیت تھی
صحرا کے بدو دنیا کو فتح کر گئے
آج بھی یہ عروج ممکن ہے
اگر
آج کا استاد اپنا محاسبہ کرے معاشرے کی نئی تعمیر میں اپنی بھاری ذمہ داری سمجھے
اپنا انداز بدلے
تو یہ معصوم سہما ہوا بچوں کا گروپ
میرے کل کا مسکراتا کامیاب پر اعتماد پاکستان بن سکتا ہے
کیونکہ
ہر بچہ آپ کے لیے ہے امتحانی پرچہ
آپ ان کو خوبصورت اخلاق سے حل کریں
یقین رکھیں
جواب میں یہ ملک اس کا مزاج اس کا ماحول
بدل کر اسے عظیم مملکت بنادے گا ٌ
جو صرف اور صرف اچھے استاد سے ممکن ہے
سانحہ ساہیوال اگر آپ کی درشت رویّے کی وجہ سے ہوا
تو
آپ کے انداز بدلنے سے یہ ملک بدل سکتا ہے
اس ملک کے ہر رویے کے ہر نفع اور نقصان کے اصل ذمہ دار آپ ہیں
یعنی
استاذہ کرام

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر