برلن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن دارالحکومت میں ہفتے کو ہزاروں مظاہرین نے کورونا سے متعلق پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ جرمنی میں حکومت پہلے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کر چکی ہے۔
مظاہرین نے جرمن دارالحکومت کے مرکزی علاقے کی اہم سڑکوں پر مارچ کیا۔ بیشتر لوگوں نے ماسک پہننے کی ہدایات کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی۔ ریلی کا اختتام جرمن پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب برانڈن برگ گیٹ پر ہوا۔
مظاہرین نے اپنے نعروں میں کورونا سے متعلق حکومتی ہدایات کو ‘جھوٹا الارم‘ قرار دیا اور ‘وبا کی پابندیاں ختم کرو‘ کے نعرے لگائے۔
اس موقع پر پولیس شرکاء میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے ہارن بجا کر انہیں خبردار کرتی رہی۔ اس طرح کے مظاہروں میں سازشی نظریات کے حامل لوگوں سے لے کر دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتوں کے کارکن شریک ہوتے رہے ہیں۔
منتظمین نے کہا کہ حکومت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو ماسک پہننے پر مجبور کرے اور انسان کی قوت معدافیت کی جگہ ویکسین کو فوقیت دے۔ شرکاء نے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
اس موقع پر مظاہرین نے تالیاں اور سیٹیاں بجا کر مقررین کے موقف کی تائید کی۔ کئی مظاہرین نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ اپنی آزادیاں صلب نہیں ہونے دیں گے۔ اس احتجاج کا عنوان ‘وبا کا خاتمہ- یومِ آزادی‘ رکھا گیا تھا۔
یہ احتجاج ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب جرمنی میں حکام کورونا کیسز میں اضافے پر اظہار تشویش کر رہے ہیں۔
بظاہر جرمنی میں کورونا لاک ڈاؤن اپریل میں ختم کیا جا چکا ہے لیکن اب بھی خرید و فروخت کی مقامات اور ریستورانوں میں ‘سوشل ڈسٹینسنگ‘ یا سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور ماسک پہننے کی پابندی برقرار ہے۔ سماجی فاصلے کا ضابطہ پارک اور دوسرے پکنک منانے یا سیر و تفریح کے مقامات میں بھی لاگو ہے۔
کورونا وائرس کی وبا پر نگاہ رکھنے والے محکمے کا کہنا ہے کہ موسم گرما کی بیرون ملک تعطیلات منانے والے کئی لوگ اپنے ساتھ وائرس لائے ہیں۔ جمعہ کو 955 نئے کیسز سامنے آئے۔ جو کہ حالیہ دنوں کی قدرے بڑی تعداد ہے۔