واشنگٹن (جیوڈیسک) ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اس پر بیس سال سے عائد اقتصادی پابندیوں میں مزید توسیع کی تو وہ اس کا بدلہ لے گا۔
بدھ کو ٹی وی پر نشر کیے جانے والے ایک خطاب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے ایسا کوئی اقدام کیا تو اسے پتا ہونا چاہیے کہ ایران اس پر خاموش نہیں رہے گا۔ تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ایران کا جواب کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پابندیوں میں توسیع ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان گزشتہ سال ہونے والے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
سنہ 1996 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورِ حکومت میں امریکہ نے ایران پر اس کے مشتبہ جوہری پروگرام کے باعث اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں جن کی مدت رواں سال کے اختتام پر پوری ہورہی ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتے امریکی ایوانِ نمائندگان نے متفقہ طور پر ان پابندیوں میں مزید 10 سال کی توسیع کی منظوری دے دی تھی جس پر ایرانی حکومت خاصی برہم ہے۔
پابندیوں میں توسیع کے لیے ضروری ہے کہ امریکی سینیٹ بھی ان کی منظوری دے جس کے بعد قانون کو نفاذ کے لیے صدر اوباما کے دستخط درکار ہوں گے۔
صدر اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے جو تاریخی جوہری معاہدہ کیا تھا اس کے تحت ایران کی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت اور امکان بڑی حد تک ختم ہوگیا ہے۔
اس معاہدے کے عوض ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں بتدریج اٹھائی جارہی ہیں لیکن کانگریس میں دونوں بڑی پارٹیوں – ری پبلکن اور ڈیموکریٹ – کے ارکان نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ایران سے متعلق سخت موقف اپنائیں گے۔
نومنتخب صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں لیکن انتخاب جیتنے کے بعد سے انہوں نے یا ان کے قریبی مشیروں میں سے کسی نے تاحال اس بارے میں کوئی واضح پالیسی بیان نہیں دیا ہے۔
بدھ کو اپنے خطاب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنی ای کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت ایران کےساتھ کیسا رویہ اختیار کرے گی، ابھی قبل از وقت ہوگا۔