ماہرین فلکیات نے پیشگوئی کی ہے کہ پندرہ اپریل سے آسمان پر حیرت انگیز طور پر مون ایپوکلپس کا آغاز ہونے والا ہے، جس میں کرہ ارض، سورج اور مریخ ایک ہی لائن میں آ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خون رنگ چاند نمودار ہوتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی خون رنگ چاند کے وقفے وقفے سے چار مرتبہ نمودار ہونے کا وقت قریب آنے کی تصدیق کی ہے۔ 15 اپریل کو چاند خون میں نہایا نظر آئے اور یہ نظارہ رواں برس اور 2015ء میں مسلسل چار بار نظر آنے والا ہے، عیسائی برادری کا ماننا ہے کہ یہ قیامت کا آغاز اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی علامت ہے۔
عیسائی مذہب کے ماننے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انجیل میں اس بات کی پیشگوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں دوبارہ آمد اور قیامت سے پہلے سورج تاریکی میں ڈوب جائے گا اور چاند مکمل سرخ ہو جائے گا۔ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اسکے ساتھ ہی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے قیامت کی کئی بار جھوٹی پیشگوئیاں بھی ہو چکی ہیں۔ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں نے 21دسمبر 2012ء کو قیامت کا دن قرار دیا تھا۔ مایا کلینڈر کے مطابق 21دسمبر 2012ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہونا تھا لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہونا تھی مگر قیامت کے بارے میں اسلام کے نظریہ کے مقابلہ میں یہ عقیدہ بھی فیل ہو گیا۔
اپنی ناکامی کے بعد منہ چھپانے کے بجائے اس عقیدہ کے ماننے والوں نے قیامت کی ایک نئی تاریخ دے دی اور اس تہذیب کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مایا کلینڈر کا عیسوی کلینڈر سے غلط موازنہ کیا گیا اور 21دسمبر 2012ء کو قیامت نہ آنے کی وجہ حساب کتاب کی غلطی ہے، صحیح حساب کے مطابق قیامت یکم جنوری 2017ء کو آئے گی تاہم حیرت انگیز طور پر کچھ لوگ اس نئی تاریخ سے بھی مطمئن نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ قیامت 2023ء میں آئے گی۔ اس سے قبل ایک عیسائی مبلغ ہیرالڈ کیمپنگ بھی یہ پیش گوئی کر چکا ہے کہ 21اکتوبر 2011ء کو دنیا ختم ہو جائے گی۔ اس عیسائی مبلغ نے پہلے 21مئی کو قیامت آنے کی پیش گوئی کی تھی مگر جب مئی کا یہ دن خیریت سے گزر گیا تو پھر اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جمع تفریق میں تھوڑی بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے، جسے اب ٹھیک کر لیا گیا ہے لہٰذا اب 21اکتوبر 2011ء کو قیامت آئے گی مگر یہ دن بھی خیریت اور سکون سے گزر گیا۔
Universe
کائنات کے خاتمے کے حوالے سے پیش گوئی کرنے والے وہ اکیلے نہیں بلکہ مغربی دنیا میں ان سے پہلے بھی کئی لوگ قیامت کی ناکام پیش گوئیاں کر چکے ہیں حتیٰ کہ متعدد سائنس دان بھی مختلف موقعوں پر خلاء میں بھٹکتے ہوئے کئی بڑے اجرام فلکی کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں قیامت برپا ہونے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں، مگر ہر بار کرہ ارض ایسے کسی ممکنہ حادثے سے بچتا رہا ہے۔ ماہرین فلکیات کی موجودہ پیشگوئی کے بعد سے دنیا کے خاتمے بارے مذہبی پیش گوئیاںایک بار پھر شروع ہو چکی ہیں۔ یہ پیشگوئیاں کس حد تک سچ ثابت ہوتی ہیں یہ تو 15اپریل کو ہی پتا چلے گا البتہ اتنا ضرور ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال میں مون ایپوکلپس تین بار وقوع پذیر ہوا ہے لیکن جب بھی نمودار ہوا دنیا میں مذہبی حوالے سے ڈرامائی تبدیلیاں ضرور دیکھیں گئیں۔ پہلی بار جب 1949ئ میں بلڈ مون آسمان پر ابھرا تو کیتھولک عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کو بڑے پیمانے پر دیس نکالا گیا۔ 1949ء میں خون رنگ چاند سامنے آیا تو ہزاروں سال کی حدود کے بعد یہودیوں کیلئے اسرائیل وجود میں آ چکا تھا۔ یہ واقعہ 1967ء میں بھی پیش آیا جب عرب اسرائیل جنگ زوروں پر تھی۔
جہاں تک قیامت برپا ہونے کی پیشگوئی کا تعلق ہے تو اس دنیا کی مثال ہماری زندگی کی طرح ہے، انسانی زندگی کی طرح دنیا بھی آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ قیامت کے بارے میں اسلامی عقیدہ دیگر تمام مذاہب کے نظریات کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے عقیدہ کے مطابق دنیا کے خاتمے کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے، البتہ قیامت سے قبل اس کی چند علامات ضرور ظہور پذیر ہوں گی۔ ان علامات میں سیدنا امام مہدی کا ظہور، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور زمین سے ایک جانور کا نکلنا جو بات کرے گا، یاجوج ماجوج کا ظہور اور اللہ کے غضب سے ان کی ہلاکت، سورج کا مغرب سے نکلنا اور آگ کا ظاہر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ کائنات کے اختتام کے حوالے سے اسلامی عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ہے، البتہ اسلام نے اس سلسلے میں صدیوں پہلے جو نظریہ دیا، آج سائنس کے بیان کردہ اندازے اس کے قریب تر ہیں۔