ریٹائرمنٹ کے بعد، دوستی ایک عظیم نعمت

Friendship

Friendship

تحریر : روشن خٹک

ہم چاروں ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست کھانے کے میز پر محوِ گفتگو تھے، چونکہ ہم چاروں دوست ریٹائرمنٹ زندگی کے دور سے گزر رہے ہیں، بو جوہ ہماری گفتگو کا مو ضوع بھی زندگی بعد از ریٹائرمنٹ کا دور تھا۔ سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم نے پروفیسر ڈاکٹر
عباس خاں خٹک سے پوچھا ” ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کے فون کالز آنے میں کتنی کمی آئی ہے ،جواب مِلا 70فیصد،، یہی سوال جسٹس(ر) شاہ جی رحمن سے پوچھا گیا ، ان کے طرف سے بھی یہی جوب آیا۔اگر چہ یہ ایک عام سا سوال تھا لیکن میرا ذہن ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی پر سوچ بچار کرنے لگا کیونکہ ہر سرکاری ملازم کو ایک دن ریٹائر ہونا پڑتا ہے اور اسکو گھر کے اندر بھی اور گھر سے باہر بھی ایک بالکل مختلف صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ددورانِ ملازمت ایک مخصوص ٹائم ٹیبل ہوتا ہے جس کے مطابق ناشتہ، لنچ ، ڈنر یا دیگر کام کرنے ہو تے ہیں ، بیگم بھی اسی روٹین کی عادی ہو تی ہے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد فرصت کے اوقات گزارنا نہ صرف خاوند کے لئے مشکل ہو جاتا ہے بلکہ بیگم کی قوتِ بردشت کا بھی کڑا امتحان ہو تا ہے۔اسی طرح باہر کی دنیا میں بھی اچھی خاصی تبدیلی آجاتی ہے،جو لوگ نہ صرف اپنی ضرورت کے لئے کال کیا کرتے تھے بلکہ عید الفطر، عید الاضحی ،عید میلاد النبی ،رمضان المبارک پر کال کرکے مبارکی دیا کرتے تھے۔نوکری کے خاتمے پر یہ سلسلہ ایسے ٹوٹتا ہے جیسے سخت گرمی میں پانی کے تالاب سوکھ جاتے ہیں۔۔

چونکہ جائینٹ فیمیلی سسٹم اب تقریبا مفقود ہو چکا ہے ، اولاد اپنے جھنجٹوں سے فارغ نہیں ہو تی، رہی سہی کسر موبائل نے پوری کر دی ہے اگر ایک گھر میں تین بیٹے ہیں تو ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ان کی انگلیاں موبائل پر ہوتی ہیں ،آپس کی باتیں اور گھپ شپ اب باقی نہیں رہی ۔ ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی کے اچھے دوست موجود ہوں تو ریٹائرڈ لوگوں میں پھر وہ بڑاخوش قسمت شخص ہے ، یوں تو کسی زمانے میں بھی دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ریٹائرمنٹ کے بعد اس کہ اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

کیونکہ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو چیز سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو تی ہے وہ تنہائی ہوتی ہے۔تنہائی ایک نہایت مضر چیز ہے ،جس کا علاج اچھے دوست ہیں۔ ڈاکٹر عباس خان تو کہتے ہیں کہ فرینڈ ز میں Fکا مطلب وٹامن ایف ہے گویا دوست بھی انسانی صحت کے کے لئے نہ صرف مفید ہے بلکہ لازمی ہے۔آج کی سائینسی تحقیق بھی یہی بات کہتی ہے کہ دوست آپ کے لئے ملٹی وٹامنز کا کام کرتے ہیں ۔جو آپ کو تقویت فراہم کرتے ہیں ۔ہمارے دوست جسٹس (ر) شاہ جی رحمن صاحب نے دوستوں کا ایک گلدستہ بنا رکھا ہے جس میں ہر رنگ کے پھول موجود ہیں وہ دوستوں کی محفل سجانے میں ہمیشہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ دوستوں کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے، خوش نہیں رہ سکتے،سکون اور طمانیت ان کے بغیر بے معنی ہے ۔ اس لئے وہ چیف ایگزیکٹو کے پی او جی سی ایل عثمان غنی خٹک، معروف فارماسیسٹ حاجی حبیب اللہ ، بزنس کے ماہرحاجی ملک غنی ، مشہور معالج پرفیسر(ر) ڈاکٹر عباس اورمعروف ماہرِ تعلیم پروفیسر(ر) ابراہیم خٹک اور راقم الحروف کو ہر دوسرے ،تیسرے دن کسی نہ کسی دسترخوان پر اکٹھا کرکے وٹامن ایف مہیا کرنے کا مو قع فراہم کرتے ہیں۔

سارے دوست ایسی صحبت سے خوب لطف اندوز ہو تے ہیں کیونکہ سب کا یہ خیال ہے کہ اگر چہ دوستی ہر عمر کا تقاضا ہے مگر عمر کے آخری حصے میں،صحت کے لئے ایک نسخہ کیمیا ہے ،جن لوگوں کو اچھے دوستوں کی صحبت میسر ہوتی ہے ان کی عمر لمبی ہو تی ہے۔ وہ زندگی کو خوشگوار انداز میں گزارتے ہیں ، ان میں قوتِ برداشت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ جدید سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ جن لوگوں کے دوست نہیں ہو تے ،وہ اکیلے پن کا شکار ہو جاتے ہیں ،وہ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے زندگی سے تمام دلچسپیاں معدوم ہو جاتی ہیں،ان میں ایسی ایسی خامیاں اور بیماریاں از خود جنم لیتی ہیں کہ ان کو خود ان کا علم نہیں ہوتا،ایسے لوگ پھر زندگی کو بوجھ اور کانٹوں کی مالا سمجھتے ہیں اور ان کے کے قریبی رشتہ دار بھی ان کو اپنے لئے بوجھ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

لہذا میری اپنے ہم وطن تمام سینئیر سیٹیزن سے گزارش ہے کہ وہ مخلص افراد پر مشتمل دوستوں کا ایک گروپ بنائیں کیونکہ خلوصِ نیت سے دوستی کو پروان چڑھانے والے دوست خوشبو کا جھونکا ہوا کرتے ہیں جس سے تن بدن معطر ہوجاتا ہے اور یہ بھینی بھینی خوشبو زندگی کے کے آخری حصے کو مسحور کئے دیتی ہے ،مشہور مقولہ ہے کہ دنیا میں وہ شخص غریب نہیں ،جس کے پاس دولت نہیں بلکہ دنیا کا غریب ترین شخص وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔

Roshan Khattak

Roshan Khattak

تحریر : روشن خٹک