قومی ایکشن پلان کے تحت 121 افراد کو اب تک حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبائی حکومتوں نے 182 مدارس، 34 اسکولوں اور 5 کالجوں کو اپنی تحویل میں لیا ۔اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں نے 163 ڈسپنسریوں، 184 ایمبولینسز اور8 دفاتر کو بھی اپنی تحویل میں لیا ۔وزارت داخلہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن نیشنل ایکشن پلان کے تحت جاری ہے، وزارت داخلہ صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ رابطے میں ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبدالرف اور بیٹے حماد اظہر کو بھی حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔ امریکا ، برطانیہ، آسٹریلیا، آسٹریا، فرانس ،ناروے ،کینیڈا، آئرلینڈ، ڈنمارک ،اسپین، پرتگال ،اٹلی سمیت 44ممالک میں ’نیشنل ایکشن پلان‘کا نافذ ہوچکا ہے۔NAPپر عملدرآمد کرنے کے بعد سے بہت سے ممالک نے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس قسم کا ’پلان ‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 16دسمبر 2014کے APSکے افسوناک سانحے کے بعد بذریعہ ٹیلی وژن و ریڈیو پیش کیا گیا۔یہ 20نکاتی ’نیشنل ایکشن پلان‘ مندرجہ ذیل ہے۔
1۔ سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزا موت پرعملدرآمد۔ 2۔ دوسال کے لیے فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل کورٹس کا قیام ۔3۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے عسکری ونگز کا خاتمہ۔4۔ نیکٹاکو مضبوط و موثر بنانے کا عزم۔5۔نفرت انگیزتقاریرومواد کے خلاف مکمل کارروائی کا فیصلہ ۔6۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ ۔7۔کالعدم تنظیموں کوکسی دوسرے نام سے بھی کام کرنے سے روکا جائے گا۔8۔ مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا ۔
9۔ خصوصی کاؤنٹر ٹیررازم فورس اور تعیناتی عمل میں لائی جائیں گی۔10۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اورضابطہ بندی کا اہتمام کیا جارہا ہے۔11۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں اوران کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی۔12۔ فاٹا میں انتظامی وترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی،آئی ڈی پیز (بے گھر افراد) کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔13۔ دہشتگردوں کے مواصلاتی نظام کو ختم کیا جائیگا۔14۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردوں اور اُن کے نظریات کے فروغ پر مکمل کاپابندی عائد کی جائے گی ۔
15۔ پنجاب سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں دہشتگردی ناقابل برداشت ہوگی۔16۔ ’کراچی آپریشن‘ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔17۔ بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرزسے سیاسی مفاہمت کا اختیار دیا جائیگا۔18۔ فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے ساتھ فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔
19۔افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے گی ۔20۔ صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشتگردوں کے مواصلاتی رابطوں تک رسائی دینے اورانسداد دہشتگردی کے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے فوجداری نظام میں اصلاحات کا عمل تیزکیا جارہا ہے۔
دسمبر 2014میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی جانب سے پیش کیا جانے والا 20نکاتی ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر تاحال چند نکات پر ہی عمل درآمد نظر آیاجب کہ ابھی بھی بہت سے نکات implementation کے منتظر ہیں۔اگر ہمNAPُ پر سرسری سی نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہوگا کہ 20 نکاتی’نیشنل ایکشن پلان‘ میں4نکات پرNACTA کا قیام آج بھی اپنے باقاعدہ وجود میں آنے کا منتظر ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارتی واویلا شروع ہوا تو پاکستان نے کسی بھی پاکستانی تنظیم یا فرد کے پلوامہ حملے میں ملوث نہ ہونے کے باوجودعالمی اداروں کے دباو اور بھارتی ڈوزیر میں موجود افراد اور تنظیموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعدملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد تیز کر دیا گیا ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں، شہرِ قائد کے علاقے گلشن اقبال میں بھی ایک مدرسے کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
محکمہ اوقاف نے تحویل میں لیے گئے مساجد کے نئے امام اور خطیب مقرر کر دیے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت مزید 3 اسکول بھی سندھ حکومت نے تحویل میں لے لیے، جن میں دار القرآن جمشید کالونی، دار القرآن خاصخیلی کالونی اور فاطمہ تعلیم القرآن شامل ہیں۔ذرائع محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نواب شاہ نے تینوں تعلیمی اداروں کو تحویل میں لے لی، تینوں تعلیمی اداروں کا کنٹرول اب محکمہ اوقاف سندھ کے پاس ہوگا، ان اداروں میں مجموعی طورپر 207 طلبہ زیرِ تعلیم تھے۔اب تک ملک بھر سے 182 مدارس اور 34 اسکول و کالجز، 5 اسپتال، 184 ایمبولینس اور درجنوں دفاتر کا کنٹرول حکومت سنبھال چکی ہے جب کہ 121 افراد زیر حراست لیے جا چکے ہیں۔سندھ بھر میں فلاح انسانیت اور جماعۃ الدعوۃ کے زیر انتظام چلنے والے 56 مدارس اور اسکولوں کو صوبائی حکومت تحویل میں لے چکی ہے۔پنجاب میں 160 مدارس، 32 اسکول، 2 کالجز، 4 اسپتال اور 153 ڈسپنسریاں تحویل میں لی گئی ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق جو اسکول اور مدارس تحویل میں لیے گئے ہیں وہ محکمہ اوقاف کی چھ رکنی کمیٹی کے حوالے کیے گئے ہیں۔ ترجمان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کےخلاف آپریشن جاری رہے گا، صوبوں کے ساتھ وزارت داخلہ مل کر کام کر رہی ہے۔ جماعتہ الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی کئی حکومتیں بیرونی دباؤ پر ان جماعتوں پر پابندیاں لگا چکی ہیں لیکن ہر دفعہ پاکستان کی عدالتوں نے ان جماعتوں پر پابندیاں ختم کرکے ملک بھر میں کام کرنے کی اجازت دی ممکن ہے اس دفعہ بھی ایسا ہی ہو ۔ جماعت الدعوہ ملک کے اند ر ہمیشہ پر امن رہی ہے۔ جلاو گھیراو، توڑ پھوڑ، مظاہرے اور جلوس نکالنے کا کام نہ صرف خود نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف رائے عامہ بھی ہموار کی۔ جماعت الدعوہ کا یہ نقطہ نظر ہے کہ مسلمان ممالک میں مسلمان حکومتوں کے خلاف مسلح جدو جہد درست نہی۔ اس سے نہ صرف امت مسلمہ کمزور ہوتی ہے بلکہ کفار کو اپنی سازشیں کامیاب بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس کایہ منہج ہے کہ مسلمان حکمران اور عوام کو دین کی صحیح اور سچی دعوت دی جائے ۔
جماعت الدعوہ کا یہ نقطہ نظر ہے کہ عوامی مقامات پر بم دھماکے، عوام الناس کی املاک کو نقصان پہنچانا، بے گناہ افراد کو خواہ مخواہ قتل کرنا، عورتوں کی عصمت دری کرنا اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کھلی دہشت گردی ہے۔ یہ کام کوئی تنظیم کرے یا ملک وہ دہشت گرد ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوہ کے نزدیک مسلم ممالک میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نہ صرف حکومتوں پر عائد ہوتی ہے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی ان کے حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
جہاد فی سبیل اللہ کے میں بارے جماعہ الدعوہ کا نظریہ وہی ہے جو اسلاف کا تھا جو قرآن وحدیث سے واضح ہے۔ اللہ تعالٰیٰ نے کتب علیکم القتال کہہ کہ جہاد فرض کیا ہے اس کی فرضیت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا جہاد فتنہ وفساد کو مٹاتا ہے۔ نیز کفار کی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور ان کے قبضے سے اپنی سرزمین چھڑانے کے لیے کی جانے والی کوشش جہاد ہے۔ چنانچہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، عراق اور افغانستان میں غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے جو جہاد ہو رہا ہے جماعت الدعوہ اس کی بھر پور حمایت کرتی ہے اور ان کوششوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو اس جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے ہو رہی ہے۔ سماجی بہبود اور مفت طبی سہولیات پہنچانے کے حوالے سے جماعت الدعوہ نے فلاحی ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن قائم کیا ۔8اکتوبر2005 کوآزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلہ میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کا اعتراف عالمی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں کیا۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پاکستان کی ایک اسلامی فلاحی تنظیم ہے، جو قدررتی آفات میں ہنگامی امدادی کاموں کے علاوہ طب، تعلیم، روزگار سمیت مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ یہ جماعت الدعوہ پاکستان کی طرف سے بنائی گی ایک فلاحی تنظیم ہے۔
اس کے مدیر حافظ عبد الرؤف ہیں۔ اس تنظیم نے بہت سے پروجیکٹس بھی ترتیب دیے ہیں، جن میں واٹر پروجیکٹ بھی ہے۔ اس کا کام بلوچستان، سندھ و دیگر ایسے علاقے جہاں سے پانی دور دراز سے لایا جاتا ہے تاکہ ان کے لیے آسانی مہیا ہو۔ اس کی طرف سے ملک بھر میں ہسپتالبھی چل رہے ہیں، جن میں کراچی میں دی ماڈرن، مریدکےمیں العزیز، گوجرانوالہ میں اماں عائشہ اور الدعوہ ریسکیو سینٹر سمیت دیگر ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ الدعوہ ریسکیو سینٹر دریائے نیلم کے پاس بھی قائم ہے، جس کا کام دریا میں ڈوبنے والوں کو نکالنا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل کیمپس بھی ہیں، جو فری کیمپنگ کرکے لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ جیل خانہ جات میں بھی یہ کام کرتے ہیں۔ ملک میں جو بھی وباء پھیلی ہو اس سے بچنے کے لیے فوری طور پر یہ بچوں کو احتیاطی تدابیر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عیادت کمیٹی ہے، اس کا کام مریضوں کی عیادت کرنا ہے۔ رمضان میں سحری و افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس تنظیم کی طرف سے لاہور،کراچی اور اسلام آباد میں ریسکیو سینٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ تنظیم ہزاروں افراد کو فوری طبّی امداد کی ٹریننگ دے چکی ہے۔ اس تنظیم کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس جماعتیں جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں جو پاکستان میں پرامن رہ رہی ہیں اور بلا تفریق انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں ان پر پابندیاں یقیناً لاکھوں افراد کو متاثر کریں گی ۔ تھر پارکر ، بلوچستان ، آزاد کشمیر اور ملک بھر میں ہر ماہ خاندانوں کو خشک راشن ، مساجد کی تعمیر، پانی کے کنوئیں ، روزگار کی فراہمی، تعلیم کون ان متاثرین کو امداد یہ سہولیات فراہم کرئے گا ؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ان پابندیوں کے بعد حکومت نے تمام ادارے اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ میرے سمیت ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ حکومتی سطح پر صرف دعوے کیے جاتے ہیں عملی کام نہیں۔ اگر حکومت اتنی ہی فعال ہوتی تو ان تنظیموں کو کام کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ جس الزام کے تحت ان تنظیموں پر پابندی لگا گئی وہ خود اقوان متحدہ بھی تسلیم نہیں کرتی۔