تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ آزاد خیالی اس سیاسی فلسفے کا نام ہے جو شخصی آزادی، جمہوری نظام حکومت، اور آزادی تجارت، کا پرچار کرے۔ آزادی خیالی کی تحریک اٹھارویں اور 19 ویں صدی کی پیداوار ہے۔ جبکہ درمیانے طبقے کے لوگوں نے جاگیرداری اور مطلق العنانی کے خلاف جدوجہد کی۔ انقلاب امریکا،اور انقلاب فرانس اسی کی پیداوار ہے۔ سب سے پہلے آزاد خیالی کا لفظ اہل سپین نے استعمال کیا۔ اور اسی طرح سب سے پہلے آزاد خیال سیاسی جماعت بھی وہیں منظم ہوئی۔ معاشی اعتبار سے آزاد خیالی سے مراد یہ ہے کہ آزاد تجارت، ذاتی ملکیت اور بلا روک ٹوک درآمداور برآمدکی اجازت ہے۔
پاکستان ایک کثیر سیاسی جماعتیں رکھنے والا ملک ہے۔ یہاں ہر سیاسی جماعت کو ایک دوسرے سے ملکر کام کرنا پڑتا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی، لیکن یہ بھی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو اکیلے ہی حکومت سازی کر سکے بلکہ صرف مخلوط حکومت ہی ممکن ہے۔اگرذکرکیاجائے سیاسی جماعتوں کا اس وقت تقربیاًتین سوکے قریب ہیں۔جن میںسے چند جماعتوں کے کارکن سدابہار حکومت کے مزے لیتے ہیں۔ان میں آل پاکستان مسلم لیگ،انصاف و ترقی پارٹی پاکستان،بلوچستان نیشنل پارٹی،بلوچ نیشنل موومنٹ،پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز،پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)،پاکستان پیپلز پارٹی (شیرپاؤ)،پاکستان جمہوری پارٹی،پاکستان سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی،پاکستان عوامی تحریک،پاکستان تحریک انصاف،پاکستان سنی تحریک،پاکستان کرسچین کانگریس،پاکستان مسلم لیگ (ج) (جونیجو)،پاکستان مسلم لیگ (ض) (ضیاء الحق)،پاکستان مسلم لیگ (ف) (فنکشنل ـ پیر پگاڑا)،پاکستان مسلم لیگ (ق) (قائد اعظم)،پاکستان مسلم لیگ (ن) (نواز شریف)،پاکستان مسلم لیگ (ہم خیال)،پختونخوا ملی عوامی پارٹی،تحریک استقلال،جماعت اسلامی پاکستان،جمعیت اہلحدیث پاکستان،جمعیت علمائے اسلام س (مولانا سمیع الحق)،جمعیت علمائے اسلام ف (مولانا فضل الرحمن)،جمعیت علمائے پاکستان، نورانی (مولانا نورانی)،جمعیت علمائے پاکستان، نیازی (مولانا نیازی)،جموں کشمیر پیپلز پارٹی،جمہوری وطن پارٹی،جنت پاکستان پارٹی،جئے سندھ قومی محاذ،خاکسار تحریک،سندھ جمہوری اتحاد،سندھ نیشنل پارٹی،سنی اتحاد کونسل،عالمی ضمیر فروش پارٹی،عوامی تحریک (پلیجو)،عوامی لیگ،عوامی مسلم لیگ،عوامی نیشنل پارٹی،کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان،کیمونسٹ مزدور کسان پارٹی،گرین پارٹی آف پاکستان،لیبر پارٹی پاکستان،متحدہ قومی موومنٹ،مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی)،ملت پارٹی،نیشنل پارٹی (پاکستان)،نیشنل پیپلز پارٹی،وفاقی قومی تحریک،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی ودیگر شامل ہیں۔
اسلامی اقتصادی نظام دراصل اقتصاد کا ایک مکمل اقتصادی نظام ہے، جس کی بنیاد قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام ، اشتراکیت اور اشتمالیت سے الگ ایک مکمل اقتصادی نظام ہے۔ اس نظام میں باقی نظاموں کی کوئی خامی نہیں۔ اسلامی اقتصادی نظام سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت وغیرہ سے یکسر مختلف ہے۔ اسلامی معاشی نظام کو مختصراَ یوں بیان کیا جا سکتا ہیں کہ اس نظام کا ”دل ”تجارت ہے۔ لہٰذا اسلامی اقتصادی نظام میں”زر”یعنی پیسہ حقیقی دولت پر مبنی جنس ہوتا ہے جیسے طلائی دینار اورنقرئی درہم، گندم، چاول وغیرہ۔ یہ سود، قمار، غرر سے پاک ہوتیں ہیں۔ یہ آزاد بازاروں پر مبنی ہوتی ہے جہاں پر ہر شخص اپنی تجارتی اشیاء کی فروخت کر سکتا ہے۔ جہاں تھوک فروشی تک ہر شخص کی یکساں رسائی ہوتی ہے۔ ہر چھوٹا کاری گر و صنعت کار اپنا کارخانہ خود بنا سکے گا۔
Bank
ان اوقاف میں شرکت، مضاربت، مرابحہ وغیرہ کے طریقوں سے تجارت ہوتی ہے۔ وادیعہ (بینک کامتبادل) کے ذریعے حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ان کی حسابوں میں منتقل کرے گی اور وہاں ان کی دولت امانت کے طور پر محفوظ رکھی جائے گی۔”شرعی زر”کا معیار حکومت مہیا کرتی ہے۔ ملکی خزانہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ ان سب اداروں کی نگرانی حسب کرتی ہے۔ غریب عوام سے کوئی محصول وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت امیروں سے محصول (ٹیکس) ، زکوٰاة، عشر، خراج، جزیہ وغیرہ کی صورت میں لے کر غریبوں میں بانٹے گی۔ اسلامی اقتصادی نظام میں نجکاری کو محدود کیا جاتا ہیاور سرکاری اداروں کی نجکاری پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔دریاؤں، ڈیموں، نہروں، تیل، گیس، کوئلے، بجلی ، جنگلات، چراگاہوں وغیرہ کی نجکاری نہیں کی جا سکتیں۔روٹی، کپڑا، مکان اور پانی کی حکو مت کی جانب سے مفت فراہمی کی جائے گی۔ بیمہ کمپنیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے گی۔ لہٰذا سونے کے دینار اور چاندی کے درہم موجودہ کاغذی نوٹوں کی جگہ لے گی۔
اسلام میں دو چیزیں ہیں ایک عبادات اور دوسرا معاملات۔ دین کا تقریباً پچھتر فیصد(75%) حصہ معاملات پر مشتمل ہیں۔ تو معاملات میں اسلامی اقتصادی نظام، اسلامی سیاسی نظام، اسلامی قانونی و معاشرتی نظام وغیرہ سب شامل ہیں۔ تو اسلامی اقتصادی نظام معاملات کا ایک حصہ ہے۔لہٰذا ہمیں معاملات کو اسلامی بنانا ہے اور معاملات اسلامیہ کا عملی نفاذ ہمارا مقصد زندگی ہونا چاہئے۔ لہٰذا ‘نظام معاملات، سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت اور مخلوط معیشت کا متبادل ہے۔ اس نظام کو سب سے پہلے حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم نے مدینہ منوّرہ میں نافذ کیا۔ بعد میں خلافائے راشدین نے اس کے نظام کو نافذ کیے رکھا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں زکوٰة نا دینے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیاگیا۔ اور بعد میں خلافت بنو امیہ اور عباسی خلافت میں اس کا نفاذ تھوڑے بہت کوتاہیوں کے ساتھ نافذ رہا۔ خلافت عثمانیہ میں بھی اسی نظام کو نافذ کیا گیا۔ اور 1924ء میں سقوط خلافت کے بعد اس کا نفاذ بھی ترک کر دیا گیا۔ اور 1928ء میں طلائی دینار کی اجراء کو ترک کر دیا گیا۔ لہٰذہ اس نظام کو متروک ہوتے ہوئے تقریبا ایک صدی گزر چکی ہیں۔ تا ہم دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں اس کا جزوی طور پر دوبارہ آغاز ہو چکا ہیں۔ جس میں ملایشیا، انڈونیشیا، پاکستان، افغانستان، ایران وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں کا دامن ہمیشہ سے ہی صاف رہاہے کیونکہ قبضہ گروپ ہو یا کسی بھی جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو اس کا تعلق کسی نہ کسی جماعت سے ہے ۔یہ کوئی بھی ماننے کوتیارنہیں۔جس کی وجہ سے ہرروزپاکستان میں کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہوتاہے۔ جس کی آڑ میں اربوں روپے بیرون ممالک میں منتقل کرچکے ہیں۔ تجاوزات کے حوالے سے تقربیاً95فیصد سرپرستی کا الزام سیاستدانوں پر آتاہے۔چنددنوں تک سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کی ایک مذہبی رہنما اور ان کے قریب دوست کی سیاسی جماعت میں شمولیت متوقع ہے۔جس کے ذرائع وہ قبضہ گروپ کیخلاف مہم شروع کرنے والے ہیں۔اب تقر یباًحالات بدل چکے ہیں۔کیونکہ انقلاب کے نام پر شروع ہونے والی تحریکوں کے سربراہوں نے پاکستانی قوم کو کئی حصوں تقسیم کردیا ہے۔اس لئے قبضہ گروپ کیخلاف شروع ہونے والی مہم میں عوام کو تو کوئی فائدہ متوقع نہیں بلکہ مہم کے بانیوں کو ایک نئے انداز میں ضرور شہریت حاصل ہوگی۔