انقلاب کی خواہش

Rebellion

Rebellion

بغاوت کی ہولناک خاموشی کا تسلسل ٹوٹنے والا ہے کہ ضبط کی رفاقت کو 67برس کا طویل عرصہ گزر گیا ایک ایسا ملک جس کی رگوں میں کرپشن کا زہر کلچر بن کر دوڑ رہا ہو پر امن تبدیلی کی خواہش ایک مذاق سے کم نہیں فرنگی کے نوبل انعام کو پائوں کی ٹھوکر مارنے والے مردِ مجاہد علامہ عنایت اللہ مشرقی نے کہا تھا ! پہلے دشمن کی طرح مضبوط ہوجائوپھر دشمن سے ٹکرا جائو ‘ہٹلر نے کہا تھا ! کسی تحریک کو کامیاب طور پر چلانے کیلئے اُن بہادروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ملک اور قوم کیلئے اپنا سب کچھ قر بان کر سکیں ‘مائو نے کہا تھا ! انقلاب کا راستہ بندوق کی نالی سے ہو کر گزرتا ہے۔

لینن نے کہا تھا ! انقلاب کیلئے اُن لوگوں کی ضرورت ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں اُتریں ”مشرقی نے کہا ! قوم کبھی سر بلند نہیں ہو سکتی جب تک اُسکے افراد کا کردار بلند نہ ہو اور وہی انقلاب کامیاب ہو سکتا ہے جو بلند کردار عوام کی منظم قوت سے پیدا ہو ہٹلر نے کہا ! کسی قوم کا بلند اخلاق اور اسکی نسل کا عالی مرتبت ہونا قومی تعمیر کیلئے مقدم ہے مائوزے تنگ نے کہا ! ہتھیار جنگ میں اہم ضرور ہیں لیکن فیصلہ کن کردار عوام کی منظم قوت سر انجام دیتی ہے لینن نے کہا ! انقلاب کیلئے اعلٰی کردار کے حامل لوگ چاہیئں تاریخ کے عظیم دانشوروں اور انقلابی شخصیات کے سنہری اقوال کے آئینہ میں کرپشن کی بنیادوں پر استوار معاشروں میں پر امن تبدیلی کی خواہش کسی سراب سے کم نہیں ہوتی جنوری 2001 کاسورج طلوع ہوتا ہے۔

پوٹھوہارکے ایک شاہیں نے انگڑائی لی اور آمر وقت کو ایک خط لکھا اِس تحریر سے مصمم ارادہ کی قوت عیاں ہوتی ہے اس نے لکھا جنرل صاحب ! آپ یہ بات فراموش نہ کریں کہ اقتدار بھی چند روزہ ہے اور زندگی بھی چند روزہ ان میں سے کسی کو دراز نہیں آپ کو موقع ملا ہے کہ اسلامی نظام نافذ کرکے تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہ سکتے ہیں ورنہ یاد رکھیں ایک دن نہ صرف بے اختیار بلکہ بے حس وحرکت چند گز ان سلے کپڑے میں لپٹے پڑے ہونگے وہاں کوئی سرکاری گارڈ ،سپیشل اسکوارڈ نہیں ہو گا دائیں بائیں سرکاری محافظ نہیں ہو نگے بلکہ منکر نکیر جواب طلب کر رہے ہونگے جنرل صاحب ! آپ اسلام نافذ کر دیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی توقع ہے۔

آپ کی حکومت امریکہ کا طوقِ غلامی اُتار کر محمد رسول ۖکی غلامی قبول کریں گے ہم وعدہ نہیں عمل چاہتے ہیں جنرل صاحب ! آپ اسلام نافذ نہیں کریں گے تو میرے ہاتھ پر نفاذ اسلام کیلئے موت کی بیعت کرنے والے تین لاکھ جانبازوں کے سر آپ کو کاٹنا ہوںگے ہم اسلام کے نفاذ کیلئے ایوانِ اقتدار کی طرف آئیں گے موت پر بیعت کرنے والے تین لاکھ جانباز گلے میں قرآن ڈالے ہاتھوں میں تسبیح پکڑے لا اِلہ الااللہ محمد رسول اللہ اور اللہ ھوُ کا ورد پاک کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے ہم غیر مسلح آئیں گے ہم امن کے داعی ہیں ہم سب کیلئے عدل کے طالب ہیں والسلام امیر محمد اکرم اعوان جانے کیوں؟

Peace

Peace

امن کا داعی یہ غیر مسلح کارواں رک گیا عوام کے اندر منزل کی جو اُمید جاگی اُس پر اوس پڑ گئی قوموں کی زندگی میں وقت جس انداز سے کروٹ لیتا ہے اُس کو تاریخ اپنے دامن میں محفوظ کر لیتی ہے ،وقت کو اپنی گرفت میں لانا ،اُس کی روش کو اپنے مقاصد حیات کے مطابق ڈھالنا ،کسی عظیم شخصیت ،مردِ مومن کی ضرورت ہوتی ہے جو عقلِ کامل اور کامل عشق کا حاصل ہو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرا بڑی عظیم و جلیل اور لازوال تھی وہ قربانی جو 1940ء میں برطانیہ کے خوفناک سامراج کے خلاف بروئے کار آئی تین سو تیرہخادمانِ خلق نے منظم ترین فریضہ سر انجام دیا تاریخ کے موء رخ اس دن کی عظمت کو نظر انداز نہیں کر سکیں گے۔

جب غلام قوم کے شاہباز دیو استبداد سے پنجہ آزما ہوئے جب پیدل سر پھروں نے گھوڑ سواروں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا جب بیلچے آتش باز رائفلوں سے ٹکرائے جو کچھ ہوا تاریخ کے الفاظ میں ڈھل گیا اور ایک غیر فانی کارنامہ کی حیثیت سے اُس کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا کیا انقلاب کے دعویداروں کی کاوشیں اس نہج تک پہنچ پائیں یقینا اِس کا جواب نفی میں آتا ہے وہ قوتیں انقلاب کی باتیں کر رہی ہیں جو خود انقلاب کی زد میں آئیں گی حبیب جالب کے انقلابی شعر پڑھ کر انقلاب کا مذاق اُڑانے والوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ انقلابی ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے آپ کو ختم کر دیتا ہے۔

اُس کی ذاتی دلچسپیاں نہیں ہو تیں ،مراسم نہیں ہوتے ،جذبات نہیں ہوتے وابستگیاں نہیں ہوتیں ،جائیداد نہیں ہوتی حتیٰ کہ اُس کا اپنا نام بھی نہیں ہوتا اُس کی ذات کو ایک دلچسپی ،ایک مقصد اور ایک شدید جذبہ اپنے اندر جذب کر لیتا ہے وہ دلچسپی ،مقصد ،شدید جذبہ انقلاب کہلاتا ہے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک