واقعہ کربلا

Karbala

Karbala

تحریر: علامہ عبدالرحمن کائناتی
یورپی مورخین واقعہ کربلا کو بنو امیہ او ربنو ہاشم کی پرانی رقابت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ستم ظریقی یہ ہے کہ بعض مسلمان علماء بھی مغربی مورخوں کی تقلید میں یا شیعہ سنی تعصب میں آکر اس کو ہاشمی اموی رقابت کا نتیجہ ہی قرار دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ شیعہ سنی نزاع نے واقعہ کربلا کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے ایک طرف شیعہ حضرات حضرت امام حسینکو نبیوں کے برابر درجہ دے کر وضعی روایت پیش کرکے اس واقعہ کو عجیب ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف سنی علماء میں بعض ایسے متعصب لوگ ہیں جو حضرت امام حسین کی شہادت ہی سے انکار کرتے ہیں اور یزید کو ولی اللہ ثابت کرنے کیلئے اختراعی اور وضعی روایتوں سے کام لیتے ہیں۔

چونکہ ہم علماء نے اسلام کو بحیثیت نظام کے سمجھا ہی نہیں بلکہ صرف پوجا پرستش کا مذہب سمجھ لیا ہے اور اسی مذہب کے معیار پر واقعہ کربلا کو پرکھتے ہیں ایک طبقہ حسین کی طرف داری میں یزید کو شرابی زانی او راوباش ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا طبقہ یزید کو نمازی حاجی پارسا ثابت کرتا ہے حالاں کہ اگر یزید میں شراب نوشی ‘زنا’یا صو م وصلوة کی پابندی نہ کرنے کے عیوب موجود بھی ہوتے تو یہ اسکا انفرادی فعل تھا امام حسین یادوسرے صحابہ کو اس کے اس فعل کیخلاف اتنا بڑا انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ انقلاب کی ضرورت تو اس وقت ہوتی ہے جب کسی حکومت کی طرف سے امت کے اجتماعی نظام عدل میں رخنہ اندازی کی جائے نہ کہ کسی حاکم کے ذاتی فعل کیخلاف اتنا بڑا اقدام کیاجائے جس میں ہزاروں انسانوں کی جانیں قربان ہوں او رامت ہمیشہ کیلئے مختلف فرقوں میں بٹ جائے یہ انقلاب ثابت کرتا ہے کہ یزید کے اجتماعی نظام میں اسلام کے کسی بنیادی اصول کو توڑا گیا تھا اس لئے ان حضرات نے اپنا سب کچھ یزید کی حکومت ختم کرنے کیلئے وقف کردیا اب ہم ذیل میں دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ یہ اختلاف نہ قبائلی رقابت کا نتیجہ تھا اور نہ ہی اپنی ذات کیلئے حکومت حاصل کرنا اس کا مقصد تھا۔

Imam Hussain

Imam Hussain

اس جگہ آپ تین امور پر خوب غور کرلیں اول یہ کہ حضرت امام حسین نے اپنی زندگی کے ابتدائی چھ سال تقریبا نبوت کے دامن میں سے گذارے یعنی ان چھ سالوں میں آپ پیغمبر ۖ کے زیر تربیت رہے اور نفسیات کے ماہرین کا اس قاعدہ پر اتفاق ہے کہ جب کوئی بچہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو ابتدا ہی سے اپنے ماحول اور گردو پیش سے اسکے قلب و دماغ پر نقوش مرتسم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پانچ سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے یہ نقوش پختہ ہو جاتے ہیں اور اس بچے کا دل و دماغ خاص قالب میں ڈھل جاتا ہے علامہ جلال الدین دوانی نے اپنے شہرہ آفاق کتاب موامع الاشراق میں تحری کیا ہے کہ نظام فطرت کے تحت ہر چیز میں چالیں کے عدد کو بڑا دخل ہے کیوں کہ نطفہ رحم مادر میں چالیس دن کے بعد خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے اورپھر دوسرے چالیس دن میں گوشت کا ٹکڑابن جاتا ہے اور تیسرے چالیس دن میں گوشت کی ہڈیاں اور پٹھے وغیرہ بن کر روح کے قابل ہو جاتا ہے اور اس وقت اس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو وہ زندہ ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ موسی کو طورکے پہاڑ پر چالیس دن کا چلہ کرنے کا حکم ہوا تاکہ آپ کا قلب مبارک وحی کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائے اور اسلئے ہر پیغمبر کو چالیس سال کی عمر ختم کرنے کے بعد اعلان ختم نبوت کا حکم ہوتا ہے اس قاعدہ کلیہ کے تحت جب کوئی بچہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو ہر چالیس دن کے بعد اس کا قلب ودماغ نئے نقوش قبول کرنا شروع کردیتا ہے۔

اسلئے تقریبا پونے پانچ سال کی عمر میں چالیس چلے پورے ہو جاتے ہیں اور اس وقت بچے کا دل و دماغ اپنے ماحول کا رنگ میں رنگا جاتا ہے تو کیا امام حسین اس عمر میں پیغمبرۖ کی تربیت میں رہ کر اپنے قلب و دماغ کو پیغمبرانہ کمالات اور اوصاف کے نقوش میں منقش نہیں کرسکے تھے یقینا آپکا دل و دماغ اس ماحول سے جو پیغمبرۖ کا ماحول تھا اس چھ سالہ عمر میں پوری طرح اوصاف حمیدہ او راخلاق عظیمہ کا نمونہ بن چکا تھا تو پھر ایسے شخص سے قبائلی رقابت یا ذاتی حکومت کیلئے اتنا بڑا انقلاب کرنے کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے دوسرا امر یہ کہ اس چھ سالہ عمر کے بعد امام حسین کا بچپنہ جوانی تک مہاجرین اور انصار کی قدوسی ہستیوں کے ماحول میں گذارا اور حضرت ابوبکر او رحضرت عمر جیسے جلیل القدر خلیفوں کے ماتحت آپ متعدد غزوات میں شریک ہوتے رہے چنانچہ علی فکری مصری نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت امام حسین افریقہ کے جہاد میں بھی شریک رہے اور جرجان او رقبرستان کی جنگوں میں بھی شریک رہے یہ علاقے ایران کے شمال میں ہیں او رپھر ملک روم کی جنگ میں بھی شریک ہوئے)احسن القصص ج-ص)اور اسکے بعد حضرت عثمان کے دور میں او رپھر حضرت علی کے دور میں بھی آپ مرکزی حکومت کا کاروبار میں شریک رہے تو کیا ایسے ماحول میں پرورش پا کر جوان ہونے والا شخص اتنا بڑا اقدام صرف قبائلی رقابت کی بناء پر یا ذاتی حکومت کی خاطر کرسکتا ہے اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر حضرت امام حسین کا یہ انقلاب اسلام کے کسی بنیادی اصول کے لئے ہو ہی سکتا ہے

تیسرا امر یہ ہے کہ حضورِ اکرم ۖ سے حضرتِ امام حسین کے بارے میں متعدد حدیثیں موجود ہیں جن میں سے کچھ روائتیں تو ایسی ہیں جن سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضورِ اکرمۖ حسین کے ساتھ اُسی قسم کا پیارے کرتے رہے جیسے ہر کنبہ کا سربراہ کیا کرتا ہے مگر کچھ روائتیں ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت امام حسین کا خدا کے ہاں بہت بڑا مرتبہ ہے ۔ چنانچہ اس قسم کی تین حدیثیں صحاح ستہ میں موجود ہیں۔ ایک جابر ابن سَمُرَہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسولۖ اللہ نے الحسن و الحسین سید ا شباب اہل الجنة (احسن القصص ج٤ص٢٢٤) یعنی حسن اور حسین دونوں اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی نوجوان مؤمن انتقال کرچکے ہیں یا تاقیامت انتقال کریں گے۔ ایسے سب نوجوانوں کے سردار حسن اور حسین ہوں گے۔ تو کیا ایک ایسا شخص جو غلط اقدام کرے اوراپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے افراد کو موت کے اندر مبتلا کرنے والا ہو تو وہ بہشتوں میں جا کر مؤمن نوجوانوں کا سردار ہوسکتا ہے ہر گز نہیں۔ یہ سرداری تو صرف اُسی شخص کو نصیب ہو سکتی ہے جس نے دنیا میں اسلام کی خاطر کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہو۔ اوروہ کارنامہ یہی واقعۂِ کربلا ہے۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے اور براء ابن عاذب اور ابوسعید خُدرِی تینوں سے روایت ہے اور ان تینوں نے علیٰحدہ علیٰحدہ تین واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضورۖ خطبہ دے رہے تھے اور امامِ حسین صفوں میں سے گرتے ہوئے آپ کے قریب پہنچے ۔ آپۖ نے اُٹھا کر چھاتی سے لگایا اور منہ پر پیار کا بوسہ دیا اور پھر یہ الفاظ فرمائے جو آگے آتے ہیں برائ ابن عاذب فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورۖ راستے پر آرہے تھے تو راستے میں امام حسین مل گئے تو آپۖ نے اُن کو اپنے کاندھے پر بٹھا لیا اور پھر یہ الفاظ فرمائے جو آگے آتے ہیں اورابوسعید خُدری فرماتے ہیں کہ میں ایک دن عشاء کی نماز کے بعد حضورۖ کے دروازہ پر حاضر ہُوا ۔ دستک دی۔ آپۖ باہر آئے۔ چادر میں آپۖ لپٹے ہوئے تھے اور چھاتی سے کوئی چیز ملائی ہوئی تھی تو میں نے عرض کی کہ حضورۖ یہ کیا ہے ۔ آپۖ نے چادر اٹھائی میں نے دیکھا کہ حسین ہے۔ فرمایا اس کو پہچانا۔

میں نے عرض کی کہ ہاں یہ حضرت فاطمہ کا بیٹا حسین ہے۔ جب میں نے کلمات کہے تو آپۖ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور فرمایا کہ تجھے معلوم ہے میرے ربّ نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ تو اس بچے سے پیارکرتا ہے اس پر تیری امت کی طرف سے زبردست ظلم ہوگا ۔ پھرحضور ۖ نے یہ الفاظ فرمائے۔ چوں کہ یہ الفاظ تینوں اور روائتوں میںایک ہیں ۔ اس لیے ہم نے سب روائتوں کو بیان کرنے کے بعد اس کو پیش کرنا بہتر سمجھا ۔ الفاظ یہ ہیں۔ اللھم انی احبہ فاحب من یحیہ۔(احسن القصص ج٤ص٢٢٤’ ص٢٢٥) یعنی اے اللہ میں اس بچے سے محبت کرتا ہوں تو پھر تُوہر اس شخص سے محبت کر جو اس سے پیار کرے اور بعض روائتوں میں یہ کلمہ زائد بھی ذکر ہے کہ فاحبہ یعنی اے رب تو اس بچے سے بھی محبت کر۔ آپ ان الفاظ پرغور کریں کہ جس شخص کو خدا کے پیغمبرۖ نے محبوب بنایا ہو اور پھر خدا سے یہ دعا کی ہو کہ جو اس سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر۔ تو کیا ایسے شخص کا یہ عظیم انقلاب کسی طرح بھی خلافِ اسلام ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ایک حدیث عبداللہ بن عمر سے بخاری میں ذکر ہے کہ فرمایارسول اللہۖ نے حسن اورحسین دونوں کے متعلق فرمایا ھما ریحا نتای من الدنیا(بخاری ج١ کتاب المناقب ص٥٣٠) یعنی یہ دونوں اس دنیا میںسے میرے دو پھول ہیں۔ حافظ ابنِ حجر نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ پھول ہر قسم کے عیب سے پاک اور پیارا ہوتا ہے تواِس کا مطلب یہ ہوا کہ حسناورحسین میں کسی جرم کا عیب نہیں ہوسکتا۔ تو پھر کیا ایسی شخصیت کے متعلق یہ گمان کرنا کہ اُس نے کسی جائز حکومت کی بغاوت کی ہے یا کوئی ناجائز اقدام کرکے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو ہلاک کیا ہے ۔ درست ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔

Revolution Imam Hussein

Revolution Imam Hussein

بہرحال ان تین امور سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ انقلابِ حسین اسلام کے کسی بنیادی اصول کی خاطر تھا۔ کسی ذاتی خواہش یا قبائلی تعصب کا نتیجہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ آپ ان امور پر ایک سرسری نظر پھر ڈالیں کہ جس شخص نے اپنے بچپنے کے ابتدائی چھ سال پیغمبرۖ کی تربیت میں گزارے ہوں اور پھر جوانی تک کا عرصہ مہاجرین و انصار کی قدسی جماعت میں گزارہ ہو اور پھراس کے متعلق پیغمبرۖ کے یہ ارشادات بھی ہوں کہ یہ بہشتی نوجوانوں کا سردار بھی ہوگا اور یہ میرا محبوب ہے اور جو اس سے محبت کرے خدا اس کو بھی اپنا محبوب بنائیں اور یہ شخص پیغمبرۖ کا پیارا پھول قرار پاچکا ہو تو اس کے بعد اس انقلابِ حسین کے بارے میں کوئی ایسا شخص ہی غلطی کا شک و شبہ کرسکتا ہے جس کا نہ پیغمبرۖ پر ایمان ہو اور نہ مہاجرین و انصار کی عظمت اُس کے دل میں ہو۔ اور خالصتاً مادہ پرستانہ نقطۂ نظر سے اپنے خبیث آئینہ میں ایسی مقدس شخصیت کا غلط نقشہ منقش کرلے۔ یورپی مؤرخین تو اسلام کے دشمن ہیں اُن سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں مگر افسوس ایسے مسلمان علماء پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو پیغمبرۖ کاامتی کہلاتے ہیں اور مہاجرین و انصار کی محبت کے دعوے بھی کرتے ہیں مگراس کے باوجود حضرتِ امام حسین کو باغی قراردیتے ہیں اور یزید کو ولی اللہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

تحریر: علامہ عبدالرحمن کائناتی