ایوانوں میں ہونے والے اجلاسوں پر ہر روز اپوزیشن اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور سینئر صحافیوں کے تبصرے، تجزیے سن کر لگتا ہے کہ ملک میں بہت بڑی تبدیلی آنے والی ہے یا آچکی ہے یہ تصویر ایک رخ ہے۔اگردوسری جانب دیکھنے کا موقع ملے تو شہرہویا دیہات میں بسنے والے عام آدمی کی زندگی ان تمام حکمران اور اپوزیشن رہنماؤں کے تبصرے، تجزیے اور بیانات حقیقت کے برعکس ہیں۔
کیونکہ سند ھ میں پیپلزپارٹی کی مکمل حکومت ہے اور پنجاب مسلم لیگ نون کا قلعہ ہے۔سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل ہے۔پھر بھی سند ھ میں کینسراور ایڈزکے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت صرف اور صر ف مہنگائی اور احتساب پر بات کرتی ہے۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کو آڑہاتھوں لیا کہ پی ٹی آئی حکومت جب سے آئی ہے مہنگائی کا ریلا آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔بجلی گیس کے نرخ تو بڑھے ہی تھے مگر پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی وجہ سے جو حالات خراب ہوئے ہیں اس نے عوام کاجینا محال کر دیا ہے۔اپوزیشن پہلے دن سے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقیدکرتی آ رہی ہے۔لیکن صوبہ سند ھ کی موجود صورت حال پر بات نہیں کی۔
دوسری طر ف رائیونڈسے میاں نوازشریف کی جیل واپسی کے لیے ریلی کے اہتمام پر نون لیگ قیادت کادعویٰ حقیقت کے برعکس تھا۔کیونکہ پنجاب خصوصاً لاہور مسلم لیگ نون کا قلعہ ہے جس کی موجود آبادی 2کروڑنفوس سے تجاوزکرچکی ہے لیکن ریلی میں صرف 4سے 5افراد نے شریک کی۔جن میں سے کچھ افراد کو کرایے پر حاصل کرنے کی بھی افوائیں منظر عام پر آئیں۔ لاہور میں یہ حال ہے کئی سالوں سے پاکستان پر راج کرنے والی مسلم لیگ نون کا۔ بیانات حقیقت کے برعکس ہیں۔پیپلزپارٹی،نون لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات اور دعوؤں کا عالمی صورت حال سے ملا کر تبصرہ کیا جائے تو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور تصویر یں اس بات کو واضع ثبوت ہیں۔کہ انقلا ب اور مہنگائی کے نام پرعوام کو احتجاج کے لیے سٹرکوں پر لایا جائے گا۔غریب عوام سے روٹی کا آخری نوالابھی چھیننے کی تیاری کی جارہی ہیں۔
گزشتہ روزایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی تصویر پرایک صحافی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ تیس پینتیس سالہ تندرست و توانا باپ روٹی کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں تھامے دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے اور اس کا چار پانچ سالہ بچہ اسے تسلی دلاسہ دے کر چپ کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں شامی ہیں۔ وہ شام جو کئی سال سے انقلاب کی آگ میں جل رہا ہے۔اور یہ تصویر صرف شام ہی کی نہیں ہے۔ یہ تصویر افغانستان کی بھی ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے یہی بے کسی دیکھ رہا ہے۔ یہ تصویر صومالیہ کی بھی ہے۔ یہ لیبیا کی بھی ہے۔ اور یہ ایران کی بھی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ہمارے ملک کے قبائلی علاقوں کی بھی ہے۔
ان کے علاقوں میں جنگ و جدل سے وہ تباہ کاری ہوئی ہے کہ خوشحال اور عزت دار گھرانے روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس گئے ہیں۔ وہ فقیروں سے بھی بری حالت میں بے سر و سامانی کے عالم میں کھلے آسمان کے نیچے، یا ٹوٹے پھوٹے جھونپڑوں میں بے کسی کی تصویر بنے پڑے ہیں۔ہم اپنے گرم اور محفوظ گھروں میں بیٹھنے والے، جب انقلابات کی بات کرتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ بندوق کے زور سے ہی ہمارا من پسند نظام آئے گا، یا ہماراحکمران احتجاج سے ہی جائے گا، تو اس تصویر پر نظر ضرور ڈال لیں۔ شاید ہم عبرت پکڑ سکیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو ملک بھی خونی انقلاب کی راہ پر چلے ہیں، وہ ہمیشہ تباہ ہوئے ہیں۔ بے شمار جانیں گئی ہیں۔ بے شمار عزت دار لوگ بے عزت ہوئے ہیں۔ کھاتے پیتے لوگ روٹی کے ایک ٹکڑے کو ترس گئے ہیں۔ بندوق کو دلیل بنانے والی قوموں کا ہمیشہ یہی انجام ہوا ہے۔ لیکن جو ملک اس یکلخت خونی انقلاب کی بجائے اپنے ملک کی بہتری کے لیے دلیل سے اپنے ہم وطنوں کو قائل کر کے بتدریج ذہنی انقلاب لائے ہیں، اور وہ ذہنی انقلاب ان کے ملکی نظام میں جھلکا ہے، وہ اپنے لوگوں کی زندگی کو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ایک معاشرے میں کبھی بھی تمام لوگ کسی ایک بات پر مکمل طور پر متفق نہیں ہو سکتے ہیں۔ کہیں مذہب کا اختلاف آڑے آ جاتا ہے، کہیں معاشی نظام کا اختلاف مار دیتا ہے، اور کہیں سیاسی نظام پر بات نہیں بنتی ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے، کہ سب لوگ ان اختلافات کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے مخالف گروہوں کے ساتھ مل کر امن و عافیت سے ملک چلانے کا نظام بنانے پر بات کریں۔ اپنی رائے رکھتے ہوئے دوسرے کو اس کی رائے رکھنے دیں۔ اپنا مسلک و مذہب رکھیں، اور دوسرے کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دیں۔ ایک متفقہ قاعدہ قانون لائیں جو سب کو تحفظ دے۔
جو قومیں اختلافات کو حدود میں رکھ کر متحد ہو جاتی ہیں، وہی کامیاب ہوتی ہیں۔ جو نفرت، تشدد اور قتل و غارت کی راہ پر چل پڑتی ہیں، ان کے لیے اس تصویر میں ایک سبق ہے۔ آئیے اس تصویر سے عبرت پکڑیں۔ اور کم از کم اپنے ملک پر تو رحم کریں۔ قتل و غارت اور نفاق کو برا جانیں۔ ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں۔ ورنہ کل ہم اور آپ بھِی روٹی کے ایک ٹکڑے کو ترستے ہوئے ایسے ہی نہ روتے ہوں جیسے یہ شامی،فلسطینی، افغانی اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری رو رہا ہے۔