تحریر : سید عارف سعید بخاری انقلاب اسلامیِ ایران کو 39 برس بیت گئے، یکم فروری 1979ء کو اس انقلاب کے بانی و روح رواں حضرت آیت اللہ خمینی نے فرانس میں اپنی 18 سالہ جلاوطنی کے بعد ایران میں قدم رکھا ،اُن کی آمد کے ساتھ ہی ایران میں محمد رضا شاہ پہلوی کی 200 سالہ بادشاہت اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ایرانی عوام نے قومی و ملّی جذبے کے ساتھ اپنے قائد اور رہبر ِ معظم کا شاندار استقبال کیا اور اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ایک متحد ، باوقار ، بااصول اور ایک محب وطن قوم ہونے کا عملی ثبوت دیا ۔بلاشبہ حضرت آیت اللہ خمینی کی یہ جدوجہد اُن کے فکر و عمل اور ایران کو پہلوی بادشاہت سے نجات دلانے اور ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے مقاصد کو نمایاں کئے ہوئے تھی ۔ایرانی قوم کے بچے، بوڑھے اور جوان اپنے امام کے ان مقاصد میں ان کے شریک کار بن گئے ،حتیٰ کہ خواتین نے بھی اس اسلامی انقلاب کو پذیرائی بخشنے میں ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا۔
شہنشاہ ِ ایران کے دور میں سارے ملک میں مغربی طرز معاشرت کا دور دورہ تھا اور مغربی چھاپ کی بدولت ساری قوم کو شخصی آزادیاں میّسر نہ تھیں ،اس وقت ایران میں ایک ایسا گھٹن زدہ ماحول پروان چڑھایا گیا تھا کہ جس کے تحت عوام کو اور کار سلطنت کو امریکی سامراج کی ہدایات کی روشنی میں کنٹرول کیا جاتا تھا ۔شاہ ایران نے اپنی بادشاہت کے تحفظ کیلئے اپنی الگ شاہی فورس بنا رکھی تھی کہ جو شاہ کے خلاف بات کرنے والوں کو پابند سلاسل کر دیتی تھیں۔ایران میں رہنے کیلئے شاہ سے وفاداری شرط اوّل تھی بصورت دیگر قوم کا کوئی ادنیٰ یا اعلیٰ فرد اُن کی اس وفادارشاہی فورس سے محفوظ نہ تھا ۔مغرب زدہ معاشرے کی بدولت ایرانی عوام کو زندگی کا لطف اٹھانے کیلئے جملہ مواقع میّسر تھے لیکن مادر پدر آزادی کے ساتھ ساتھ شخصی آزادیوں کو بُری طرح سلب کیا جاتا تھا ،شاہ ایران کی ان پالیسیوں کے سبب لوگوں میں اُن کے خلاف نفرتیں بڑھنے لگیں ۔ایسے ماحول کو تبدیل کرنے کیلئے اسلامی نظام حیات کو رائج کرنے کی اشد ضرورت تھی۔
قوم کو ایسے میں حضرت آیت اللہ خمینی کی صورت میں ایک ایسا رہبر ِ باوقار و بااصول میّسر آیا کہ جس نے حکومت کی طرف سے ملنے والی جلاوطنی کی سزا کو 18برس پوری قوت ،ثابت قدمی اور صبر وتحمل سے برداشت کیا ۔بالآخر وہ وقت آن پہنچا کہ حضرت آیت اللہ خمینی نے فرانس سے ایران آنے کا اعلان کر دیا اور وہ ایران پہنچ گئے ۔اُن کی آمد پر ایرانی عوام نے اُن کا والہانہ استقبال کیا ۔یوں انہوں نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی نوید عوام کو سنا دی ۔حضرت آیت اللہ خمینی نے اپنی زندگی درویشی اور عاجزی سے گذاری ،اُن کا یہی طرز زندگی ایرانی عوام و خواص کیلئے باعث اعزاز و تکریم ثابت ہوا ۔آپ نے وطن واپسی پر لوگوں کے جوش و خروش پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا ۔بیشک! بہترین و باصلاحیت قیادت ہی قوم کی تربیت و رہنمائی کا فریضہ ادا کر پا تی ہے ، یوں قوم نے ثابت کر دیا کہ اگر رہبر یا حاکم معاشرتی اعلیٰ اقدار کے داعی ہوں تو رعایا بھی ان کے ہمقدم ہو گی۔
انقلاب ِ اسلامی ایران حقیقی معنوں میں موجودہ صدی کا ایک بڑا انقلاب ثابت ہوا کہ جس پر ہزاروں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا اور عالمی سطح پر اس کی ناکامی کی پیشگوئیاں کی جانے لگیں لیکن حضرت آیت اللہ خمینی نے عالمی سطح پر ہونے والے پروپیگنڈے کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ اپنی تمام تر توجہ اپنے مشن کی تکیمل پر مرکوز رکھی اور ثابت کر دیا کہ عزم و حوصلے کے ساتھ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔آپ نے اپنی سوچ و فکر کے مطابق ایران کو ایک عظیم مضبوط اور مستحکم فلاحی جمہوری ریاست بنا کر ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ،سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جدوجہد میں ساری قوم فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر آپ کے ہاتھ مضبوط کرتی رہی اورعالم اسلام سمیت دنیا بھر کی اقوام نے آپ کی جدوجہد کو سلام پیش کیا۔
انقلاب ِایران کی تاریخی حیثیت سے انکارممکن نہیں اس انقلاب نے عالمی سیاست پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ۔اور دنیا کی سپرطاغوتی قوتوںکے غرور کو بھی خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ انقلاب ایران نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ انسانی اور اسلامی اصولوں پر چل کر کس طرح انسانی حقوق و جمہوری آزادی کا تحفظ کیا جاسکتاہے۔ گذشتہ کئی برس سے امریکی سامراج دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر خطے کے امن کو تہہ و بالا کئے ہوئے ہے اس جنگ کا مقصد بھی یہی ہے کہ امریکہ اپنی شاطرانہ چالو کے ذریعہ اسلامی ممالک کو کمزور کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔اسی پالیسی کے تحت وہ ایران بیشتر مسلم ممالک کو دھمکیاں دیتا نظر آتا ہے ۔اور انہیں اپنا دست نگر بنا کر رکھنے کی سازشوں میں مصرعف رہتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت امام آیت اللہ خمینی کی تعلیمات کی روشنی میں گذشتہ 39برس میں ایران میں برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے اپنے قائد کے مشن کی آبیاری کی ہے ،اور ان لوگوں نے سادگی اور عاجزی کے ساتھ حکومت کی ذمہ داریاں نبھا کر قوم میں اپنی عزت و وقار کو بڑھایا ہے۔
آج ایران کی ترقی اور استحکام اور قومی اتحادو یگانگت نے وطن کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور یہ کریڈٹ بھی قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کو ہی جاتا ہے کہ ایران آج دنیا کی سپر طاقتوں امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر بات کرتا ہے ۔امریکہ ایران کو دھمکیاں ضرور لگاتا ہے مگر اس میں اب اتنی جرات نہیں کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑے ۔ایران کے اسلامی انقلاب نے ملک و ملت کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دی ہے ، ہر طبقہ فکر کو اس کے حقوق حاصل ہیں،کچھ گروپوں کی طرف سے احتجاج اور یورش کے باوجود حکومت اپنے مقاصد کو پروان چڑھا رہی ہے ،ایرانی قوم میں موجود اتحاد و اتفاق اور قوم پرستی کی بدولت یہ مٹھی بھرسازشی عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ عوام کی اکثریت اسلامی انقلاب کے ثمرات سے کماحقہ استفادہ کر رہی ہے۔
ایران کے موجودہ صدرمحترم حسن روحانی اپنے قائد امام خمینی کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں نظام سلطنت چلا رہے ہیں ان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں ۔ایران اور پاکستان کے مابین دوستی کے رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ ایران اور پاکستان مختلف منصوبوں میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں ۔پاکستانی اور ایرانی عوام ایک دوسرے سے گہری محبت رکھتے ہیں اور اخوت و بھائی چارے کی ڈوری میں ایسے بندھے ہیں کہ جنہیں کوئی قوت جدا نہیں کر سکتی ۔ہم ایرانی حکومت اور عوام کو ان کی ان کامیابیوںپر مبارکباد دیتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان برادارانہ تعلقات میں مزید وسعت آئے گی اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دونوں ممالک مشکل کی ہر گھڑی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں جو اسلامی دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com