پاکستان میں اس وقت سیلاب سے ہر تباہی مچادی ہے تو دوسری طرف آزادی اور انقلاب مارچ نے ملکی معیشت تباہ کردی ہے۔پاکستان میں اس وقت دریائوں کے بپھرنے اور ریلوں سے شدید تباہی کا سلسلہ جاری ہے، سینکڑوں دیہات ڈوب گئے اور ان کا زمینی رابطہ کٹ گیا ہے، سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور اور امداد کے منتظر دکھائی دیتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میںکچے مکانات منہدم ہو گئے، سیلاب سے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو گئیں، سیلاب سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 225 سے زائد ہو چکی ہے، مختلف مقامات پر درجنوں مویشی بھی پانی میں بہہ گئے، پاک فوج اور دیگر امدادی اداروں نے سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کیلئے آپریشن جاری رکھا ہوا ہے۔
چندروز پہلے اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقوں میں وہ مناظر دیکھنے میں آئے جن کا سب کو اندیشہ تھا لیکن سب دعا گو تھے کہ ہم اس مشکل سے کسی طرح بچ نکلیں۔ اس تصادم میں 4 لوگ جاں بحق اور 500 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والے اجلاس پر سب کی نظریں ہیں۔ پوری قوم ایک کرب سے دوچار ہے۔
آن لائن بین الاقوامی اخبار”کاروان” نے گزشتہ روز اپنی رپورٹ میں شائع کیا تھا کہ ملک واضح طور سے دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ یہ کہنا بے حد مشکل ہے کہ کس رائے کا پلڑا بھاری ہے۔
تاہم ایک طبقہ حکومت کے اس مؤقف کا حامی ہے کہ اسٹیٹ کی رٹ بحال ہونی چاہئے اور پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم کو ایک بے قابو گروہ کے مطالبہ پر استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ حکومت نے اپنی نااہلی ثابت کر دی ہے۔ اس لئے اب اسی میں سب کی بھلائی ہے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اپنے عہدے چھوڑ دیں اور کوئی ایسا سیاسی انتظام کیا جائے کہ حالات پرامن ہو سکیں، احتجاج کرنے والے لیڈروں کی تسلی ہو سکے اور ملک مزید ایک فوجی ” انقلاب ” کی زد میں آنے سے بچ جائے۔
دو معاملات پر ملک کے سیاسی مبصرین متفق ہیں۔ ایک تو یہ کہ موجودہ سیاسی بحران حکومت کے گھمنڈ ، تساہل اور بروقت مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہؤا ہے۔ اس حوالے سے خاص طور سے عمران خان کی طرف سے چار حلقوں کے ووٹوں کی از سر نو گنتی اور ماڈل ٹائون سانحہ میں ذمہ داری کے تعین میں پردہ پوشی اور سست روی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تبصرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت بروقت عمران خان کی شکایتوں پر کان دھرتی اور اپنے وزیروں اور ہرکاروں کے ذریعے ان کا تمسخر اڑانے اور مطالبے کو نظر انداز کرنے کی کوشش نہ کرتی تو یہ معاملہ تصادم کی صورت اختیار نہ کرتا۔
اسی طرح جون میں ماڈل ٹائون میں ادارہ منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پر پولیس کی چڑھائی اور اس کے نتیجے میں درجن بھر لوگوں کی ہلاکت کے مسئلہ پر وزیراعلیٰ شہباز شریف کو آگے بڑھ کر ذمہ داری قبول کرنی چاہئے تھی اور اس معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے تھیں۔ اس کے برعکس حکومت نے متاثرین کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے میں بھی اڑھائی ماہ صرف کر دئیے۔
معاملہ کو نہایت سادگی سے سمجھنے کے لئے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ملک میں کافی عرصہ سے دو قوتیں موجود ہیں۔ ایک سیاسی قوت ہے اور دوسری فوج۔ سیاسی قوت جمہوری طریقہ کار کے مطابق اختیارات حاصل کرتی ہے اور عوام اسے معاملات چلانے کا حق دیتے ہیں۔ لیکن ملک کے سیاسی عمل میں ملوث سیاسی پارٹیاں اور گروہ شدید تضادات اور اختلافات کا شکار ہیں۔ یہ آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں، اصولِ جمہوریت کو تسلیم کرنے کی بجائے صرف اقتدار کے حصول کو ہی مطمع نظر سمجھتے ہیں۔ اگر انتخابات کے ذریعے بعض لوگوں کو اختیار اور اقتدار میں حصہ نہ مل سکے تو وہ ایک دوسرے کو بے ایمان کہنے ، دھاندلی کے الزامات لگانے ، مہم جوئی کرنے اور فساد برپا کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ گزشتہ ایک ماہ کے سیاسی حالات اس صورتحال اور مزاج کا منہ بولتا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
ان گروہوں پر مشتمل سیاسی قوت کے مقابلے میں ملک کی منظم فوج ہے۔ وہ سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں ، اقتدار کے لئے ان کی ہوس اور باہم چپقلش کا فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں متعدد عناصر، فوج کے سیاسی عزائم کا دست و بازو بننے کے لئے ہر وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں فوج نے ہی براہ راست یا باالواسطہ طور سے ملکی معاملات چلائے ہیں۔ جب بھی کسی سویلین حکومت نے پر پرزے نکالنے کی کوشش کی ہے تو مختلف ہتھکنڈوں سے یا تو اسے ” کھیل کے طریقوں” Rules of Game کا پابند کر لیا گیا یا اس سے نجات حاصل کر لی گئی۔
زرداری کی زیر نگرانی پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ اصول قبول کر لئے تھے اور وہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ 77 میں ذوالفقار علی بھٹو نے ان اصولوں کو مسترد کیا تو انہیں پھانسی کے تختے پر جھولنا پڑا۔
موجودہ حالات میں نواز شریف حکومت کے ساتھ فوج کے اختلافات کی ایک وجہ سابق حکمران پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی ہے۔ فوج نے اس خواہش کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ وہ پرویز مشرف کو اس معاملہ سے نکالنا چاہتی ہے۔ متعدد مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ بحران کے بعد اگر میاں نواز شریف کی حکومت قائم رہی تو تاوان کے طور پر دیگر مراعات کے علاوہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کو تسلیم کرنا بھی حکومت کی مجبوری ہو گی۔
بدنصیبی سے یہ دونوں قوتیں ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ مل جل کر ملک کے معاملات چلانے کے حوالے سے حکومت اور فوج کے درمیان خلیج حائل ہے۔ اسلام آباد میں دھرنوں اور تصادم کے نتیجہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ سے فیصلوں کا اختیار پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی بجائے جی ایچ کیو اور آرمی چیف کو منتقل ہو چکاہے۔ پاکستان ایک ملک ہے لیکن اس میں اس وقت دو حکومتیں موجود ہیں۔ ایک کو پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے، دوسرے کی پشت پر روایتی عسکری ڈھانچے کی قوت ہے۔ مبصرین کے خیال میں پاکستان میں سیلاب اور مارچوں سے انقلاب تو آگیا ہے۔ ہر طرف انسانی زندگی کو خطر ہی خطر ہے۔
انقلاب مارچ والوں کی دھمکیاں ہو ں یا قدرتی آفات یعنی سیلاب”سیلاب اور دھرنوں کے بعد کوئی نام نہاد جمہوری حکومت رہے گی یا نہیں اس کا فیصلہ بھی اب فوج کو ہی کرنا ہے۔ ملک میں فوجی ٹیک اوور کے لئے اسٹیج تیار کر دیا گیا ہے۔ اب تو صرف یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف میرے عزیز ہموطنو کہہ کر حالات سے لوگوں کو آگاہ کریں گے یا میاں نواز شریف پارلیمنٹ کو یہ بتائیں گے کہ انہوں نے قوم کے بہترین مفاد میں کون سے ” فیصلے ” کئے ہیں۔
تحریر:غلام مرتضیٰ باجوہ