کیا ضروری ہے کوئی زخم لگایا جائے؟

Election

Election

میں بہت پیچھے جانا چاہتا ہوں یہی کوئی ٤٤ سال پہلے۔ چلئے آئیے میرے ساتھ یہ گجرانوالہ کا شیرانوالہ باغ ہے سال ١٩٧٠ ہے میری عمر تقریبا ١٥ سال ہے۔ ایک پندرہ سالہ لڑکا سیاسی جلسوں میں شرکت کرتا ہے۔خنک موسم میں پاکستان جمہوری پارٹی کا جلسہ ہے۔ انتحابات ہونے کو ہیں یہ وہی انتحابات ہیں جن کے نتائج قبول نہیں کئے گئے اور اس نامعقول حرکت کی وجہ سے ہم اپنے مشرقی بازو کو کھو بیٹھے ہیں۔ عصر کی نماز کے وقت جلسہ شروع ہوتا ہے میں دیکھتا ہوں سٹیج پر جناب نورالامین، مولوی غلام فرید،نواب زادہ نصراللہ خان،ایم انور بار ایٹ لائ،خواجہ رفیق احمد ایم حمزہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

مجھے ان دیو قامت لوگوں میں سے آج صرف خواجہ رفیق احمد کی بات کرنا ہے۔درمیانے قد کے چھریرے بدن کے خواجہ رفیق احمد بلا کے مقرر تھے وہ جمہوری جد وجہد کے حوالے سے اہلیان گجرانوالہ سے مخاطب تھے وہ کہہ رہے تھے کہ آمریت اس دھرتی پر سب سے بڑا خراب بوجھ ہے اور جب فرد کے ہاتھوں ووٹ کی طاقت آئے گی تو وہ انقلاب کی نقاب کشائی خود کرے گا اور جو کوئی اس انقلاب کے راستے میں آئے گا مارا جائے گا کچلا جائے گا۔خواجہ رفیق تسلسل سے بول رہے تھے۔میں جلسہ گاہ کے ایک کونے میں اپنی تین روپے والی چھوٹی سی نوٹ بک پر ان کے خیالات کو نوٹ کرتا جاتا ہوں۔خواجہ صاحب نے سفید کرتہ کھلے بازو والا پہنے ہوا ہے اور سفید پائجامہ زیب کر رکھا ہے وہ اپنے ہاتھ لہرا لہرا کر پہلوانوں کے شہر کے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا مقدر جمہوریت سے ہے اور جمہوریت کا حسن فرد کو طاقت دینے کے اہم ستون پر قائیم ہے۔اسی دوران نعرے لگتے ہیں۔خواجہ صاحب کی تقریر ختم ہوتی ہے۔

اس کے بعد اور مقرر آتے ہیں جن کی تقریریں خواجہ سعد رفیق کی تقریر کا تکرار ہیں۔ہاں شعلہ بیاں نوابزادے کے خطاب کو سننے والے مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سمے کا پنچھی پرواز کرتا ہے۔مولوی فرید کو انہی انتحابات سے نکلنے والی آگ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اسے بنگال کی آزادی کی تحریک میں مکتی باہنی والے اپنے نیزوں کی انہییوں کی زد میں لے لیتے ہیں سلمان کھوکھر اسی شہر کا مقرر ہے وہ اسے پنجابی میں کچھ اس طرح باندھتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے جب مکتی باہنی والوں نے مولوی فرید کے سینے پر نیزے کی نوک رکھی اور کہا بولو پاکستان مردہ باد تو مولوی فرید نے کہا سچی میرے دیس دی عزت اچی میرے دیس دی شان جیوے میرا پاکستان جیوے میرا پاکستان۔ اور وقت آگے بڑھتا ہے پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نیا پاکستان بنانے آتے ہیں۔انہوں نے کیسا پاکستان دیا وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہو کے رہ گیا ہے اور خاص طور پر میثاق جمہوریت کے کمبل نے اس گند پر پردہ ڈال کے رکھ دیا ہے۔

اسی لئے اسے عمران خان مک مکا کہتے ہیں۔اس گند سے پردہ اٹھانے والے مجیب شامی،الطاف حسین قریشی،سجاد میر موجود ہیں صفدر محمود زندہ ہیں خدا ان کی عمر دراز کرے ان سے پوچھئے قاید اعظم کے پاکستان کے ساتھ سر شاہنواز کے بیٹے نے کیا کیا؟بات یہاں جمہوری پارٹی کے خواجہ رفیق کی کرنی ہے۔خواجہ صاحب لاہور میں اندرون شہر چھوٹا موٹا کام کرتے تھے بڑی مشکل سے بچوں کو رزق حلال سے پال رہے تھے انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا۔میں ریلوے روڈ لاہور کے پولی ٹیکنیک میں داخل ہو گیا۔ان دنوں ایشیا سبز اور سرخ کی لڑائی تھی۔جمعیت کا پہلا یونٹ میں نے قائم کیا اور ناظم بھی بنا۔بعد از ایںکالج کی یونین کا نائب صدر بھی منتحب ہوا۔ایک روز شور اٹھا کے خواجہ رفیق کو اسمبلی ہال کے پیچھے گولی مار کر شہید کر دیا گیا ہے۔میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا ان کی کھلی آنکھیں فرد کو دی جانے والی آزادی کا مطالبہ کر رہی تھیں ان آنکھوں کے شیشے میں ادھورے خواب تھے سپنے تھے جو وہ اپنے کم وسائل کے باوجود دیکھا کرتے تھے۔خواجہ صاحب کو جب شہید کیا گیا تو غلام مصطفی کھر گورنر پنجاب یا وزیر اعلی تھے۔

People Party

People Party

افتخار تاری وزیر تھے ہم نے سنا کہ پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے ان کی جان لے لی ہے۔ایک متوسط طبقے کے لیڈر کو شارع عام پر قتل کرکے یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ جو بولے گا سے مار دیا جائے گا۔اس جمہوری دور میں یہی کچھ ہوتا رہا۔میاں طفیل کے ساتھ شرمناک سلوک روا رکھا گیا۔جاوید ہاشمی کو برف کی سلوں پر لٹایا گیا،مولوی شمس الدین پر ٹرک چڑھا دیا گیا۔جہلم کے ملک غلام حسین کے ساتھ وہ سلوک ہوا جو وہ بعد میں منع کرتے رہے ملک سلیمان شکر گڑھ والے جے اے رحیم سب اس جمہوریت کی بھینٹ چڑھے ڈیرہ غازی خان کا مرد قلندر جس نے فاروق لغاری کے باپ کو شکست دی وہ بھی مار دیے گئے۔

مجھے یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی خر مستیوں کا ذکر نہیں کرنا اس لئے کہ نہ ساری پیپلز پارٹی بھٹو تھی اور نہ ساری جماعت اسلامی سید مودودی اسی پارٹی نے ملک معراج جیسے مرد قلندر بھی دیے۔ مجھے یہ بتانا ہے کہ خواجہ رفیق شہید کون تھا؟وہ تو شہید جمہوریت بن گئے وہ جن بچوں کو رزق حلال کھلا رہے تھے وہ کون ہیں؟ ان میں سے دو منظر عام پر ہیں ایک کا نام خواجہ سعد رفیق ہے جو وفاقی وزیر ریلوے ہیں اور دوسرے خواجہ سلمان رفیق جو پنجاب کے وزیر صحت تو نہیں مگر کام وہی کر رہے ہیں ہمارے دوست ڈاکٹر سعید الہی آرام کر رہے ہیں۔خواجہ سعد رفیق ٢٠٠٧ میں پاکستان تحریک انصاف میں جاتے جاتے رہ گئے تھے ان کے نصیبوں میں بہت سے سیاسی دھکے تھے جو انہیں اشرافیہ سے لگتے رہے مگر انہوں نے اپنی زندگی میںایک سبق سیکھا اور وہ سبق تھا کہ غربت بری بلا ہے انہوں نے فارسی مقولے سے سبق لیا اے زر تو خدا نیست و لکن بخدا ستار عیوب و قاضی ء حاجات انہوں نے ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے جد وجہد کی اور پھر انہیں دولت کمانے کا گر آ گیا اب وہ غریبی کے چنگل سے باہر آ چکے تھے انہوں نے دائیں بائیں ہو کر اپنی منزل پالی۔

اس ساری لمبی چوڑی تمہید کا تذکرہ اس لئے کر رہا ہوں کہ پچھلے ماہ ایک اندوہناک واقعہ ہوا جس کی ذمہ داری کھلی آنکھوں والے شہید کے بیٹے سلمان رفیق پربھی عائد ہوتی ہے ایک بنت پاکستان جو سات ماہ کی حاملہ تھی اسے پنجاب کی زنانہ پولیس نے مار دیا۔یہ اس دور کی نتھ فورس ہے،وہی نتھ فورس جو ١٩٧٧ میں بھٹو دور میں عورتوں کے جلوسوں پر استعمال کی گئی۔

مجھے کسی ڈاکٹر نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے ایڈہاک ڈاکٹروں کے ساتھ نا انصافیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے یہ قوم کے وہ بیٹے اور بیٹیاں ہیںجو کئی کئی سال سے دور دراز جگہوں پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔پنجاب کے سیکریٹری صحت کے سامنے قوم کا مستقبل ایک بیٹی کہہ رہی تھی میرے پاس بچوں کے دودھ کے لئے رقم نہیں ہے مجھے میری تنخواہ دیجئے ورنہ میں اپنے تین بچوں کو لے کر آپ کے دفتر کے باہر خود سوزی کر لوں گی۔ایڈہاک ڈاکٹروں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔سلمان رفیق خواجہ رفیق کا بیٹا ہے اس نے لاہور کی سڑکوں پر ایک حاملہ نرس بیٹی کی لاش دیکھی ہے میں نے اس کے باپ کی لاش کو ان آنکھوں سے دیکھا ہے جو میں نے دیکھی وہ پاکستان کے فرد کو جمہوریت کی طاقت کا مطالبہ کر رہی تھی جو سلمان صاحب آپ نے دیکھی روٹی مانگ رہی تھی۔ان ایڈہاک ڈاکٹروں،نرسوں اور اساتذہ کو دینے لئے حکومت پنجاب کے پاس رقم نہیں ہے۔

میں آج کل راولپنڈی کا رہائیشی ہوں میرے شہر میں پنجاب کے ٹوٹل بجٹ میں سے اسی فی صد میٹرو پر لگایا جا رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں ان چمکتی بسوں کی بجائے پنجاب کی حاملہ بیٹیوں کو قتل ہونے سے بچا لیا جائے لے جائیں میرے شہر سے یہ بسیں اور جا کر کسی ہسپتال میں لگا دیں اسکول پر لگا دیں ایک دو سیٹیں ہیں میں عمران کان اور شیخ رشید کی منت کر لوں گا انہین دے دیں۔ ان ینگ ڈاکٹرز کو مستقل کیا جائے اور اگر مستقل نہیں تو انہیں بھی نرسوں کی طرح کنٹریکٹ دیا جائے۔ڈاہر کے دور میں بیٹیاں ابن قاسم کو بلاتی تھیں اب یہ مظلوم مبشر لقمان کو آواز دیتی ہیں۔خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کے باپ کی کھلی آنکھیں ایک جمہوری ڈکٹیٹر کے خلاف صدا بلند کر کے اپنے رب کی بارگاہ میں اسے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں دیکھ چکی ہیں کیا پنجاب کی سڑکوں پرا کسی اور کھلی آنکھ کا منظر وقوع پذیر ہونے والا ہے؟ کسی نرس کے بعد ڈاکٹر کی کھلی آنکھیں۔آمریت اس پاکستان کی دھرتی پر سب سے بڑا خراب بوجھ ہے اور جب فرد کے ہاتھوں ووٹ کی طاقت آئے گی تو وہ انقلاب کی نقاب کشائی خود کرے گا۔اور جو کوئی اس انقلاب کے راستے میں آئے گا مارا جائے گا کچلا جائے گا۔ اس سے پہلے یہ بلڈوزر آپ پر چڑھ دوڑیں حق دار را حق رسید۔ حکمرانو! کیا ضروری ہے کوئی زخم لگایا جائے؟

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری