انقلاب کے تقاضے اور موجودہ دودر

Election

Election

جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو ایک نعرہ ہمارے کانوں میں گونجھتا ہے کہ انقلاب انقلاب اور اس انقلاب کا دورانیہ صرف الیکشن کی حد تک ہو تا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ اتنا کہ الیکشن جیتنے کے بعد عوام کو تسلی دینے کے لئے اتنا کہا جاتا ہے کہ مگر اس انقلاب کا مطلب کیا ہے یہ ایک ایسا عنقاء ہے جس کو سمجھنے سے ہمارے عقول و اذہان نہ صرف قاصر ہے بلکہ اسکا مطلب کو شاید وہ بھی نہیں سمجھ سکتے جو یہ کہتے ہیں کہ اب انقلاب آیا گیا ہے ایک طرف تو زمانہ نبوی ۖ میں انقلاب آیاتھا تو وہ ایسا انقلاب تھا جس نے تہذیب سے کورے اور علم سے عاری لوگوں کو نہ صرف کامل انسان بنایا بلکہ ان کو اوج ثریا پہ بھی مقیم کیا اور اس لفظ کا مسمی ان کی ذات کو بنایا اور یہ ہی انقلاب کا ماحاصل بھی ہے کیونکہ انقلاب باب انفعال کا مصدر ہے اور اسکے حروف اصلیہ ق ل ب ہیں جن کے ملاپ سے قلب بنتا ہے

قلب کو قلب اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کے ارادے بہت جلد تغیر و تبدل کا شکار ہوتے ہیں اور انقلاب کا مطلب ہوا کہ موجودہ نظام کو بدلنا مگرہم تو دیکھ رہے ہیں کہ ہر حکومت یہ نعرے تو لگاتی ہے کہ اب عام آدمی کی حکومت آئے گی عام شہری کو اس کے حق ملیں گے مگر ایسا ہوتا نہیں یہاں تک کہ لوگوں کے حقوق کا ان وقت کے حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں ہو تا کہ عوام کو مسائل کیا ہیں میں ہر اس جماعت کے کارکنان سے مودبانہ عرض کرتا ہو کہ جناب عالی اگر طبیعت میں ملال نہ گزرے تو آپ اپنے قائد محترم و مکرم سے اس انقلاب کے متعلق سوال تو کریں کہ جناب اس انقلاب کا کیا معنی مفہوم جناب کے ذہن و گمان میں ہے؟ کیونکہ ہم نے جو سیاسی تنظیموں سے دور رہتے ہوئے دیکھا ہے اس سے ہم کو یہ اندازہ ہوا ہے کہ جو تنظیم انقلاب کے نعرے لگاتی ہے اگر وہ جیت بھی جائے تو اس کو معلوم ہی نہں ہوتا کہ اس نے کرنا کیا ہے اسکا مکمل پلان کیا ہے اگر ہار جائے تو پھر تو دھاندلی کا واویلا مچانا شروع کر دیتی ہے اے میرے ملک کی بھولی بسری عوام خدامیرا اور آپکا حامی و ناصر ہو یہ آپ کی قیادت بے حس ہے بے بس ہے اور یقینا اس کیا وجہ یہ ہے کہ ہم عقل و شعور سے عاری ہو کر صرف انکے وعدہ فردہ پہ یقین کر لیتے ہیں اگر یہ ہی حال رہا تو یقینا نہ ہم ترقی کر سکتے ہو اور نہ ہی یہ ہمارا ملک تعمیر یافتہ ہو سکتا ہے۔

Allah

Allah

خدا را اس فرسودہ سوچ کو بدلو نعروں سے آگے عمل میدان کی طرف آو کیوںکہ اللہ تعالی نے خود فرمایا کہ”ان اللہ لا یغیرما بقوم حتی یغیروا ”ترجمہ اللہ تعالی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت نہ بدلے (القران)اب میر ا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے صرف روٹی کپڑا مکان کے نعرے لگاکہ اس ملک سے ووٹ لئے۔ انکا نعرہ تو ٹھیک تھا مگر اسکے لئے حکمت عملی نہ ہونے کے برابر تھی جس کی وجہ سے کھانے کی جگہ لوگوں کو روٹی تو نہیں دے سکے ہاں مگر اسکی جگہ گولی نے لے لی ہر علاقے میں اگر سروے کیا جائے تو یقینا ایسا کوئی قوم نہ بچی ہو گی جس میںدرجنوں افراد کا جانی و مالی نقصان نہ ہوا ہو۔ کراچی میں تو ہر جماعت کے مقتولین کی ایک بہت لمبی فہرست ہے جو افراد جاکہ دیکھنا چاہے تو وہ کسی بھی مذہبی یا سیا سی
جماعت کے دفتر میں جا کہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں مگر حد تو یہ ہے کہ موجودہ دور کی حکومت میں بھی برسر اقتدار جماعت کے کارکنان بھی مقتول ہو رہے ہیں۔

میرا کسی سیاسی جماعت سے عدمی وابستگی کی بنا پہ کوئی تعصب یا ہٹ دھرمی نہیں بلکہ حقیقت ہے جو میں نے بدیں الفاظ میں بیان کردی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اصلاح ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو کڑوی ہوتی ہے علاج مزیدار دوا سے بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے آپ کی ہونے والی تکلیف پہ میں ایک مرتبہ معذرت چاہتا ہوں مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکا ر کوئی ذی فہم و فراست والا شخص کر ہی نہیں سکتا کیوںکہ یہ خبریں تو آئے روز اخبارات کا معمول ہیں اگر حکومت کا یہ ہی نعرہ ہو تا جو کچھ آج اس وقت معاملہ ہو رہا ہے تو کیا وہ اپنی صدارت و وزارت کا حصول کر سکتی آج المیہ دیکھیں کہ ایک روزنامے نہ یہ خبر شائع کی کی کانسٹیبل شاہد کو (KFC)کے سامنے قتل کیا گیا اسکی لاش سب کے سامنے تڑپتی رہی اور ُان کارکنان نے اتنا بھی گوارا نہ کیا کہ اسکو اسپیٹل ہی پہنچادیتے کیا اس انقلاب کے مطلب یہ تھا کہ روٹی کے بدلے گولی کپڑے کے بدلے کفن اور گھر کے بد لے قبر ملے گی یا کوئی اور مطلب تھا اگر کوئی اور مطلب تھا وہ تو پورا ہی نہیں ہو ا دیکھو عوام کو جمہوریت و آ مریت سے کچھ غرض نہیں کیوںکہ آمر ہو یا جمہوری سرکار۔ عوام کو دو وقت کا پیٹ بھر کے کھانا چاہے اس لئے عوام سے یہ گزارش ہے کہ وہ اپنی اعلی قیادت سے جو نت انقلاب کی بات کرتے ہیں ان سے موجودہ نظام میں تبدلی کاپوچھے کہ آ پ اقتدار میں آنے کے بعد کس طرح اس میں تبدیلی کرے گے آپ اس میں کیا انقلاب لائیں گے آپ کے انقلاب کا مقصد کیا ہے

کیا آ پ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح بھی آپکو اقتدار مل جائے اور آپ تادم حیات اس کے ساتھ چپٹے رہیںتاکہ آ پ خوب انجوائے کر سکیں آپ نے مستقبل کے لئے پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ٹیکس کی مد میں لے کہ بیرونی ملک منتقل کر سکیں یا اس لئے کہ ذاتی مفاد کے لئے پورے ملک کو داو پہ لگا سکیں اگر یہ انقلاب کا مقصد ہے تو پھر اس عوام کو منتخب کریں اور اس ملک کو تباہ بربادی میں برابر کے شریک ہو تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اسکا خمازہ بھگتتی رہیں اگر واقعی انقلاب چاہے تو پھر اس قیادت سے پوچھے کہ اس میں کیا تبدلی لائیں گے ان میں کس کس چیز کی کمی ہے اس میں کیا تبدیلی کرو گے ہر معاملے میں ان سے انکا پلان پوچھے مثال کے طور پہ نظام تعلیم میں کیا کمی ہے اس میں کیا خامیاںہیں اس میںوہ کیا کیا تبدیلی کریںگے عوام کو سستی روٹی دینے کے لئے کیا پروگرام ہے اورتحفظ کے لئے کیا کریں گے کسی بھی شخص کو کوئی بھی عہدہ دینے سے پہلے اسکا معیار کیا ہو گا کسی بھی محکمہ کا وزیر بنانے سے پہلے اسکی وزارت کے لئے کیا لوازمات ہو ں گے ۔یہ جو کراچی میں ایک ماہ میں ٢٠ دن گیس کی عدم فراہمی ہے روڑ پہ گاڑی نہیں ہر روز٧ گھنٹے لائٹ نہیں اس کیلئے آپ کے پاس کیا نظام ہے

اگر تو وہ کوئی مطمئن و تسلی بخش جواب دیں تو پھر تو یقینا وہ آپ کے ہمارے اور پورے ملک کے ووٹ کے حقدار ہے اگر ایسا نہیں تو پھر یقیناوہ کسی طرح بھی ہماری قیادت کے حقدار نہیں اگر پھر بھی ہم نے انکو اپنا ووٹ دیا تو پھر یقیناہم ایک بے حس قوم کہلائیں گے ایسے افراد کو ووٹ دیکر پھر کسی بھی انقلاب کی توقع نہیں کرنی چاہے جب عوام بے حس ہو جائے تو وہاں پہ انقلاب نہیں بلکہ عذاب آیا کرتے ہیں اور پھر ایسے حکمرانو ں سے خیر کی توقع رکھنا انقلاب کا سو چنا ایک عبث چیز ہو گی اور شاہد پھر ہمارا یہ ہی حال ہو کہ ”ہم رہنماہوں کے بدلے راہزن کی توقع رکھتے ہیں”اس لئے تمام محب و طن لوگ یہ سوال کریں کہ کس طرح ان کی جماعت تبدیلی لائے گی آپ موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیں کہ ان کے پاس عوام کے لئے کیا پلان ہے ایک طرف تو پورا پاکستان خون میں رنگا ہو ا ہے اور دوسری طرف ہم ان یہ ہی فیصلہ نہیں کر پارہے کہ ہم ان سے مذاکرات کریں یا جنگ ایک طرف تو ملک میںخانہ جنگی کی سی کفیت ہے تو ہم دوسری طرف سب صحیح ہے کہ پالیسی پہ عمل درآمد ہو رہا ہے ایک طرف تو ملک کا کوئی بھی حصہ محفوظ و مامون نہیں مزرات پہ حملے ہو رہیں ہیں اور مساجد میں خودکش دھماکہ ہو رہیں ہیں تو دوسری طرف ہم سب ٹھیک ہے کہ رٹ لگا کہ خاموش بیٹھیں ہیں کیا

حالات انقلاب کا تقاضہ نہیں کرتے ہمارے کوئی سیاسی مقاصد نہیں مگر ہم یہ ہی کہتے ہیںکہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے اس حکومت کو چاہیے کہ وہ مخلص ہو کر عوام کے مسائل حل کرے عوام کو ان کے حقوق ان کے طلب کرنے سے پہلے ہی دے عوام کو انصاف دینا ان کی املاک وجائیداد و انفاس کو تحفظ دینا حکومت وقت کی زمہ داری ہے پر حکومت تو بے بس نظر آتی ہے ابھی حال ہی میں تھر پارکر میں جو معاملات ہو ئے حکومت بالکل بے حس ہیں ایک ارب روپے کے اعلان کرنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا جہاں پہ زکوة کے 50لاکھ کی رقم سے 45لاکھ کھالیے گئے ہو ں وہاں پہ اس ایک ارب کی مالیات سے کیا ہو گا اس لئے ہم حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیںکہ وہ واقعی انقلابی طور پہ ان حالات کا مقابلہ کرے۔اور ایسے افراد کو آگے لائے جو عوام کی صحیح معنوں میں دستگیری کر سکیں اور انکو انکا پورا حق دے سکیں۔

Mamoon Rashid

Mamoon Rashid

تحریر: مفتی مامون الرشید قادری
muftimamoon@gmail.com
03022341334