ایک خبر رساں ادارے سے خبر آئی ہے کہ اگلے سال بھی سیلا ب آئے گا۔پہاڑوں، چٹانوں سے برف پگھل کر دریائوں میں طغیانی پیدا کر دے گی۔پانی پھر سے بے قابو ہو کر سینکڑوں دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا۔لہلہاتی فصلیںتباہ ہو جائیں گی۔مال مویشی پانی بہا کے لے جائے گا۔انسانی جانیں کیڑوں مکوڑوں کی طرح پانی میں بہہ جائیں گی۔جو زندہ بچنے میں کامیاب رہے گے وہ بھوک ،افلاس، بیماروں سے ہلاک ہو جائیں گے۔کہنے والوں نے تو 2015ء کو سیلاب کا سال قرار دے بھی دیا ہے۔لیکن۔۔۔۔لیکن افسوس صدا افسوس۔ کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ حکومت،دھرنے والے،انقلاب والے،آزادی مارچ والے بھی حرکت میں آئیے۔ حکومت، عہداران، ذمہ دار، سیاستدان 2008ئ، 2010ئ، 2014ء کی تباہ کاریوں سے عبرت حاصل کریں گے۔نئے ڈیم بنائے جائیں گے۔حفاظتی بند تعمیر کیے جائیں گے۔
اب کی بار سیلاب نے تباہ کاریاں مچائی ہیں۔سب جانتے ہیں متاثرین کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔زندگی کو زندہ رکھنے کے لئے کوئی اقدامات بھی کیے جائیں گے کہ نہیں؟سیلاب متاثرین جن گھر ،مال مویشی،بچے نوجوان، بوڑھے، دولہے، پانی بہا کر لے گیا ہے۔ان کی امداد بھی کریںگے۔حیر ت کی بات ہے عوام کے پیسوں سے دورے پہ دورے کئے جاتے ہیں۔اخبارات میں بڑے بڑے فوٹو چھپائے جاتے ہیں۔گاڑیوں کے قافلے لے کر سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کئے جاتے ہیں ۔راستے میں آنے والے گدھے توگدھے ،گدھے بان کو مارپیٹ کر ہڈیاں پسلیاں توڑ دی جاتی ہیں۔پولیس وحشیانہ تشد د پر اتر آتی ہے۔
میرے خیال میں اب پولیس کو وحشیانہ تشد د کرنے پر نشانہ تشدد دینا چاہیے ۔بیچارے ہر سیاستدان،ایم این اے،ایم پی اے کے آگے پیچھے گھومتے اور سلوٹ مارتے رہتے ہیں۔عوام تو بیوقوف ہے ان کو پہلے بھی گلہ تھا،اب بھی گلہ ہے اور گلہ رہے گابھی ۔عوام تو نکھٹوہے سوائے ووٹ دینے کے کچھ کر ہی نہیں پاتی۔ان کو سزا تو ملنی ہی چاہیے۔یہ سزا کے حقدار بھی ہیں ۔قانون بھی انہی کے لئے بنا ہے۔جیلیں بھی ان کے لئے،سزاموت کے پھندے بھی ان ہی کے لئے بنے ہیں۔قانون بنانے والوں کے لئے تو اونچے اونچے محل ،کوٹھیاں،بنگلے،حکومتی مراعات،سیر سپاٹے ہوتے ہیں۔
عوام کی دولت پر ان کے بچے مہنگے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور عوام کے بچے سڑکوں پر کاغذ،ردی،روٹی کے ٹکڑے چننے کے لئے پید اہوتے ہیں۔ان کے اسکول ہوتے بھی ہیں تو جن میں ٹاٹ،ڈسک،اچھے استاد تک میسر نہیں ہوتے۔انہوں نے پڑھ لکھ کر کونسی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے۔ان کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔یہ تو کسی ہوٹل پر تنور پر روٹیاں لگاسکتے ہیں۔کسی پیٹرول پمپ پر جھاڑو لگا سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک طبقہ وی آئی پی کا بھی ہے جو عوام کی رقم سے پلتا ہے اور عوام کو ذلیل و خوار کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔عوام کو پیٹرول ،سی این جی پمپوں پر لائن لگنا پڑتا ہے اور یہ وی آئی پی لوگ لائن کراس کر کے عوا م کی رقم سے سی این جی گاڑیوں میں بھرا کر سیر و سیاحت کے مزے لیتے ہیں۔ایسی جمہوریت،ایسی حکومت،ایسے سیاستدانوں کو ،ایسے وی آئی پی کلچر کو گولڈ میڈل ،تمغے،نشان حیدر،نشان جرات،نشان شجاعت سے نوازنہ چاہیے۔کم از کم ان کے دم سے ملک میں جمہوریت کی گاڑی رواں دواں تو ہے۔سیاست کا میدان تو سجا ہوا ہے،میلہ لگا ہوا ہے۔تماشائی تماشا دیکھ رہا ہے۔ان کی ڈوریاں ان کے ہاتھوں میں ہیں یہ کٹ پتلی بنے ناچ رہے ہیں۔عوام مر رہی ہے تو کیا ہوا۔
People
عوام کو مرنا ہی چاہیے۔ان کے بچے بھوک افلاس مرنے ہی چاہیے۔ان کی بیویاں ،ہسپتالوں کے برآمدوںمیں ،رکشوں میں ،سڑک پر بچے جنم دیتی رہے ،ان کو کیا فرق پڑتا ہے۔ہسپتال ان کے لئے تھوڑے بنے ہیں ۔یہ تو وی آئی پی کے چمچوں کے لئے ہوتے ہیں۔ویسے بھی سفید وردی والے مسیحائی کم قصائی زیادہ بن گئے ہیں۔آئے روز ہرتالیں،ہنگامے اپنے بچوں کے لئے رونے والے دوسروں کے لخت جگروں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ بات ہورہی تھی آئندہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں کی ۔کہنے والوں نے تو یہ کہہ دیا کہ آئندہ سال بھی سیلا ب ریکارڈ توڑنے آئے گا۔
بھارت بتائے یا بغیر اطلاع دیئے ہماری طرف پانی چھوڑ دے گااورہم تماشا دیکھتے رہ جائیں گے۔حکومتی عہددران،سیاستدان کل بھی سوتے تھے آج بھی سوتے ہیںاور اُمید ہے آگے بھی غفلت کی نیند سوتے رہے گے۔ان کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔اپنے مفادات کی جنگ سے نجات پائیں گے تو تڑپتی عوام کی طرف نظر کریں۔امداد کے مستحقین ان کا آج بھی منہ تکتے ہیں اور تکتے رہے گے۔
اس سال بھی جو ہوا ،جو ہو رہا سب جانتے ہیں۔جن کے پاس پانی کی ایک بوند تن نہیں گئی وہی بڑھ چڑھ کر خوراک،مال واسباب لوٹ رہے ہیں۔جو متاثرین ہیں ان تک جانے ہی نہیں دیتے۔کیا یہ حکومتی نااہلی نہیں ہے۔حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے سے ناکام ہوکر رہ گ ہے۔یا پھر ان کی آنکھوں میں ڈھول جھونکی جا رہی ہے۔حکومت کو چاہیے دھرنے والوں،انقلاب مارچ والوں کو پست پرڈہ ڈال کر حفاظتی سر گرمیاں تیز کرے۔تاکہ سیلاب متاثرین کی بحالی ممکن بنائی جائے اور آنے والی قدرتی آفات سے نمٹا جا سکے۔
بھارت،چین ،سری لنگا انہی مراحل سے گزر کر گئے ہیں۔انہوں نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے طریقے ایجاد کر لئے ہیں آج وہ محفوظ ہیں۔حکومت کو چاہیے اِدھر اُدھر کانے دھرنے کی بجائے غریب عوام کی طرف دھیان دے،عوام کی فلاح و بہبود کے لئے سر توڑ کوششیں کرے ،نئے ڈیم بنائے تاکہ پانی جمع کیا جا سکے اور بڑی تباہی سے بچا جا سکے۔ورنہ ہم ناکام ریاستوں کی فہرست میں اول درجے پر فائز ہو جائیں گے۔