میکدۂ دوراں میں کسی کا جام چھلکتا ہوا اور کسی کے نصیب میں تلچھٹ بھی نہیں۔ جام پہ جام لنڈھانے والے ”ھِل مَن مذید” کی ہوس میں مبتلاء اور مجبورومقہور نانِ جویں کے محتاج۔ پاکستان میں اب دو ہی طبقے باقی، شاہ یا گدا، متوسط اور سفید پوش طبقہ مفقود۔ پریشان حال طبقے کا المیہ یہ کہ وقت کی اُڑتی دھوپ نے اُسے آگہی کے کرب اور شعور کے درد سے آشنا کردیا۔ روزافزوں ادراکی قوت نے اذہان وقلوب کے بند دریچے وا کر دیئے اور لبوں پہ لگی چپ کی مہریں ٹوٹ چکیں۔ سینوں میں نفرتوں کے بھڑکتے الاؤ کی طپش خونی انقلاب کی منادی کرتی ہوئی کہ شکستِ آرزو، ناکامی ونامرادی کا نتیجہ ہمیشہ یہی۔ حکمرانوں کو خبر نہ زورآوروں کو ادراک کہ جب نوائے خستہ سے یاس کا دھواں اُٹھنے لگے تو انقلابِ فرانس کی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ پھر بدبودار کسان پیرس کی گلیوں میں اشرافیہ کی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلتے ہیں۔
اپنے ہی وطن میں غریب الوطن اِس طبقے کو اُمید کی ایک کرن دکھائی دی جسے وہ ماہِ منور سمجھ کر بگٹٹ ہوئے۔ اُمید کے ہالے میں بیٹھا وہ شخص خلافتِ راشدہ کی بات کرتا تھا، ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا عزم اور سو دنوں میں ملک کی تقدیر بدل کر ”نیا پاکستان” بنانے کی نوید سناتا تھا۔ تب جذبات کے بھنور میں اُلجھی قوم نے سوچا تک نہیں کہ جب عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی ۖ کو صحرائے عرب کے شتربانوں کو زمانے کا امام بنانے میں عشرے لگ گئے تو ایک خاکِ پائے مصطفٰے ۖ ایسے دعوے کیسے کر سکتاہے۔ تب کسی کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ خطۂ عرب کے مسلمہ ابو الحکم کو دینِ مبیں نے ابوجہل کیوں قرار دیا اور مدینہ کے سردار عبداللہ اِبنِ ابی کو منافق کیوں کہا۔ تب یہ قولِ رسولِ ہاشمیۖ کیوں مدِنظر نہیں رکھا گیا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ عقیل وفہیم بہرحال جانتے تھے کہ اُس کی نیت محض حصولِ اقتدار ہے۔ وہ منصورِ حقیقت تو کبھی تھا ہی نہیںپھر بھی قوم اُس صاحبِ مکروریا کی ڈُگڈگی پر محض اِس لیے ناچتی رہی کہ شاید اُمید بَر آئے۔
جب وہ مسندِ اقتدار پر براجماں ہوا تو قوم کی نظریں اُس پر جم گئیں۔ اپوزیشن نے بھی یہ کڑوا گھونٹ پی کر اُسے ”کھُل کھیلنے” کا موقع فراہم کیا۔ مگر اُس کے دامن میں قوم کے لیے محض وعدۂ فردہ، اپوزیشن کے لیے انتقام کی آگ اور غداری کے سرٹیفیکیٹ۔ مانا کہ ساری اپوزیشن چور، ڈاکو اور کرپٹ لیکن کیا یہ فیصلہ اُس نے کرناہے؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر عدالتی نظام پر خطِ تنسیخ پھیر دیا جائے۔ ماناکہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی ملک کو لوٹ کر کھا گئی، سلگتا ہوا سوال مگر یہ کہ جب پاکستان گنّے کی پیداوار میں دنیا میں پانچویں اور گندم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے تو پھر آٹے اور چینی کا بحران کیوں؟۔ کیا یہ گندم اور چینی بھی اپوزیشن ہڑپ کر گئی؟۔ سوال یہ بھی کہ جہانگیر ترین کو ملک سے فرار ہونے کا موقع کس نے دیا؟۔ آج اگر یوکرائن سے 2500 روپے من گندم درآمد کی جا رہی ہے تو تپتی دھوپ میں پسینے سے شرابور کسان کے لیے گندم کی قیمت 1600 روپے من کیوں؟۔ سوال تو اور بھی بہت لیکن آگے چلیں۔
آج حکومتی آڑھت پر غداری کے سرٹیفیکیٹ دھڑادھڑبِک رہے ہیں۔ شریف خاندان غدار، ایازصادق غدار اور ساری اپوزیشن مودی کی زبان بولتی ہوئی۔ غداری کے سرٹیفیکیٹ پہلے بھی بانٹے گئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی غدار قرار دیا گیا، نتیجہ ہماری غیرتوں پر تازیانہ، سقوطِ ڈھاکہ۔ آج پھر حکومتی وزیر مشیر اپوزیشن کے خلاف شمشیربکف اور ”تنگ آمد، بجنگ آمد” کے مصداق اپوزیشن بھی تلواریں سونت کر میدان میں۔ بہت فرق ہے ”سیاسی کزنز” کے 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے اور پی ڈی ایم کے احتجاج میں۔ تب موجودہ ساری اپوزیشن حکومت (میاں نوازشریف) کی دست وبازو تھی جس نے حکمت، تدبر اور صبر سے کام لیا جبکہ سیاسی کزنز فرازِ کوہ (کنٹینر) پہ چڑھ کے للکارتے رہے۔ آج اپوزیشن بھی صبر کا دامن چھوڑ چکی اور حکمران 2014ء کی طرح مُنہ پر ہاتھ پھیر کے نشانِ عبرت بنانے کی دھمکیاں دیتے ہوئے۔ تب وزیرِداخلہ نے تدبر سے کام لیا اور آج کے وزیرِداخلہ کو دھمکی دینے کے لیے بشیراحمد بلوچ شہیداور میاں افتخار احمد کے اکلوتے شہید بیٹے کی مثالیں دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
تب کسی نے سیاسی کزنز کو غدار قرار نہیں دیاحالانکہ اِس 126 روزہ دھرنے میں سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا، وزیرِاعظم ہاؤس پر ہلا بولا گیا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے گئے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، سرِعام یوٹیلیٹی بلز جلائے گئے اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی گئی۔ آج نوازلیگ پر یہ الزام کہ اُس نے پاک فوج کے خلاف زبان کھولی۔ حقیقت مگر یہ کہ پاک فوج کو سیاسی گٹر میں گھسیٹنے کی کوشش کرنے والے بھی موجودہ وزیرِاعظم ہی ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے دھرنے کے دوران بار بار امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی بات کی۔ یہ وہی ہیں جو اپنے ہمراہیوں کو یہ کہہ کر تسلی دیا کرتے تھے کہ اُن کی پشت پر پاک فوج کی تھپکی ہے۔ گواہی مخدوم جاویدہاشمی کی، جنہوں نے سرِعام یہ راز افشاء کیا اور کہا کہ کپتان کندھوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کرتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
پاک فوج کی عظمتوں کو سلام، اُس کی ہمت، جرأت اور بہادری پر جان بھی قربان ۔اگر موجودہ حکومت کے پچھلے دو سالہ دَور کو مدِنظر رکھا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ افواجِ پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والی بھی یہی حکومت ہے جس کے وزیرِاعظم سمیت ہر کہ ومہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فوج اُن کی پُشت پر ہے حالانکہ بطور ادارہ فوج ہر جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے نہ کہ پُشت پر۔ اپوزیشن کا کوئی بھی شخص اگر حکومت پر تنقید کرتا ہے تو یہ اُس تنقید کو گھسیٹ کر فوج کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایازصادق نے شاہ محمود قریشی کے بارے میں ایک بات کی، اُس نے نہ تو افواجِ پاکستان کا نام لیا اور نہ ہی کسی مخصوص شخص پر تنقید کی لیکن اُسے بھی اِس گندی سیاست میں ملوث کرکے غداری کا سرٹیفیکیٹ دے دیاگیا۔ ایازصادق کی زبان پر شاہ محمود قریشی کے الفاظ تھے۔
عدل کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پہلے تحقیق وتصدیق اور تدقیق کر لی جاتی پھر ایازصادق یا شاہ محمود قریشی میں سے کسی کو لائقِ تعزیر ٹھہرایا جاتا لیکن اِس سارے ا فسانے میں شاہ محمود قریشی کا ذکر تک نہیں البتہ ایازصادق مسلمہ غدار۔ ویسے ایازصادق کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ اُسے بھی حضرت علی کا یہ قول یاد نہیں رہا کہ کسی کم ظرف پر احسان کرو تو اُس کے شر سے بچو۔ 2014ء میں ایازصادق نے بطور سپیکر قومی اسمبلی غیرآئینی طور پر تحریکِ انصاف کے استعفوں پر 100 دنوں تک کوئی کارروائی نہیں کی اور بالآخر تحریکِ انصاف نہ صرف پارلیمنٹ میں واپس آئی بلکہ تین ماہ کے واجبات بھی گھر بیٹھے وصول کیے۔ آج اگر وہی تحریکِ انصاف ایاز صادق کو غدار قرار دے رہی ہے تو ٹھیک ہی کر رہی ہے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنا بند کر دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم (خاکم بدہن) پھر کسی حادثے کا شکار ہو جائیں۔