ذاتی خواہشوں کے صحرا میں بھٹکنے والے کیا جانیں کہ اُن کا فرض اور دھرتی کا قرض کیا ہے۔ اہلِ دانش جانتے ہیںکہ اُن کا تصوراتی و تخیلاتی انقلاب”محض سراب اور اُن کا بحرِ بے کنار محض حباب۔ درآمدی ہُنر مند کے قلب و ذہن میں چھپے زہر سے آگہی ضروری مگر قوم کو آگاہ کون کرے کہ قائدانہ صلاحتوں کا قحط ۔سرخ آندھیاں اٹھنے کو بے تاب مگر فکر و نظر ، فہم و ادراک اور بصارت و بصیرت جنسِ نایاب۔بصیرت سے محروم حکومتی ”صلاح کار” ایک ایسے شخص کے تنِ مردہ میں پھر سے روح پھونک گئے جسے عدالت نے ”مسلمہ جھوٹا” اورایسا نفسیاتی مریض قرار دیا۔
جو بے ساختہ جھوٹ بولتا ہے۔جھوٹ کی انتہا یہ کہ ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے ایک ہزار ضخیم تصانیف ، ہزاروں لیکچرز اور دنیا کے 90 ممالک میں خطبات اور دیگر بے پناہ مذہبی و سیاسی سر گرمیاں 2005ء سے 2012ء تک محض سات سالوں میں سرانجام دیں۔شاید” حضرت” جانتے ہونگے کہ قوم ”حساب کتاب” میں ذرا کمزور ہے۔ویسے اگر کوئی حساب کرنے بیٹھ جائے تو تصانیف ، خطبات اور لیکچرز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ”حضرت” کی عمراِس وقت بھی کم از کم ڈیڑھ سو سال تو ہونی چاہیے۔
Government Punjab
حکومتِ پنجاب کی بوکھلاہٹ کے طفیل محترم کا سیاسی قد اونچا ہوا۔ سنا تو یہی تھا کہ خادمِ اعلیٰ کی صوبہ پنجاب پر گرفت اتنی مضبوط ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا لیکن سب ”ڈھول کا پول” ۔خادمِ اعلیٰ کی ناک کے عین نیچے اتنا بڑا سانحہ ہو گزرا لیکن انہیں خبر تک نہ ہوئی ۔پتہ نہیں حکمرانوں کے ہاں اتنا قحط الرّجال کیوں ہے۔ مانا کہ۔
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
حکمرانوں کا ”میڈ ان پاکستان” ہوناشک و شبہ سے بالا تر لیکن ”صلاح کاروں کی بصارت و بصیرت پر مطلق نظر نہیں ۔معیار محض ذاتی تعلق، استواریٔ وفا اور استرضا۔بجا کہ ایسے لوگ کسی بھی سیاسی جماعت کا انمول اثاثہ ہوتے ہیں لیکن مدِ نظر رہے کہ ”عقلِ ہر کس بقدرِ ہمتِ او است ” ۔اور یہ بھی کہ ہوسِ جاہ کے بھوکے بھیڑیے محض پلک جھپکنے کے منتظر۔
جلسے جلوسوں ، لانگ مارچوں اور دھرنوں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں البتہ فوج ۔۔۔۔ مانا کہ فوج بعد از خرابیٔ بسیار اپنی حدود و قیود پہچان چکی ، یہ بھی تسلیم کہ پاکستان کے حالات لیبیا جیسے ہیں نہ مصر و شام جیسے ۔بلاشبہ نواز لیگ کے پاک فوج کے ساتھ جتنے بہتر تعلقات آج ہیں، پہلے کبھی نہ تھے اور سب سے بڑھ کر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا ”فوجی مزاج” کسی بھی طالع آزمائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ لیکن یاد رہے کہ حکومت کو دباؤ میں رکھ کر اپنی بات منوانے کے لیے کسی کا کندھا بھی تھپتھپایا جا سکتا۔ اس لیے بس اتنی سی احتیاط کہ اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ، سنبھل کے چل
اس وقت ملکی سلامتی کو بیک وقت دہشت گردوں اور سیاسی مداریوں سے خطرہ ہے اور ایجنڈا دونوں کا ایک ،افراتفری محض افراتفری اور نتیجہ انارکی ۔مولانا قادری تو کسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ہر سال پاکستان پر یلغار کر دیتے ہیں لیکن کیا عمران خاں بھی ؟ ۔۔۔ ہر گز نہیں ، خاں کی حب الوطنی کسی بھی شک و شبے سے بالا تر ہے ، لیکن وہ جو ہم سمجھتے تھے کہ صحرائے سیاست کی سترہ سالہ آبلہ پائی کے بعد خاں صاحب میدانِ سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی بن چکے ہونگے لیکن ہمارا خیال غلط نکلا۔ وہ توابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں سے آغازِ سفر کیا تھا۔
ارسطو نے کہا ”ہر غلطی آپ کو کچھ نہ کچھ سکھا سکتی ہے بشرطیکہ آپ سیکھنا چاہیں”لیکن خاں صاحب توشاید سیکھنے کے موڈ میں ہی نہیں کیونکہ اگر انہوں نے کچھ سیکھا ہوتا تو تحریکِ انصاف کبھی بھی جھوٹ کی فصل کو ہوسِ جا ہ کی ٹپکتی رالوں سے پروان چڑھانے کی تگ و دو کرنے والے کی APC میں شرکت کرکے زانوئے تلمذ تہ کرتی نہ حالت جنگ میں کسی لانگ مارچ کا اعلان کرتی۔
کالمی درویشوں ” والے سینئر لکھاری نے بار بار کہا اور لکھا کہ ”کپتان جھوٹ نہیں بولتا” لیکن خاں صاحب کی مختصر سی سیاسی زندگی سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں سچ بولنے کی عادت ہی نہیں اوران کی سیاسی دوکان پر سب کچھ بکتا ہے سوائے سچ کے۔یوں تو بہت سے حوالے دیئے جا سکتے ہیں لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے محض اتنا ہی کہ خاں صاحب صالح قیادت کا علم بلند کرکے نکلے لیکن ابتداء ہی میں مر گئے سب یار عشق کی کون انتہا لایا
انہوں نے ایسے ”صالحین” اکٹھے کیے کہ خود ہی کہنا پڑا ”سبھی نہیں لیکن اکثریت صالح افراد پر مشتمل ہو گی۔ پھر کمند یہاں ٹوٹی کہ ”آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے، انہیں سے گزارہ کرنا پڑے گا”۔جب ان کے اس فرمان پر ہلچل مچی تو فرما دیا کہ انتظار کریں ٹکٹ صرف ”صالحین ”کو ہی دیا جائے گا۔الیکشن کے بعد ایسے صالحین منتخب ہوئے جو باہم جوتم پیزار ۔دعویٰ یہ کہ 90 دن میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے لیکن 400 دنوں میں ایک چھوٹے صوبے کی تقدیر بھی نہ بدل سکے ۔الیکشن کے ہنگام چیف جسٹس ، چیف الیکشن کمشنر ، نگران وزیرِ اعظم ، نگران وزرائے اعلیٰ خصوصاََ نجم سیٹھی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
ضد کرکے عدلیہ کی زیرِ نگرانی انتخابات کروائے لیکن الیکشن ہارنے کے بعد سبھی چور ٹھہرے اور ریٹرننگ آفیسرز کا کردار”شرمناک” ۔میں نے بطور پریزائیڈنگ آفیسر کئی انتخابات میں ڈیوٹی دی اس لیے خوب جانتا ہوں کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 2 سے 3 گھنٹے بعد نتیجہ پولنگ ایجنٹس کے ہاتھ میںاور رات 9 بجے تک تقریباََ ہر امیدوار کے پاس مکمل رزلٹ پہنچ جاتا ہے ۔اگر رات ساڑھے گیارہ بجے میاں صاحب نے کارکنوں کا شکریہ ادا کر دیا تو اس میں ”دھاندلی” کہاں سے آ گئی؟۔
اگر ریٹرننگ آفیسرز واقعی نواز لیگ کے قبضۂ قدرت میں تھے تو کیا میاں برادران فاتر العقل تھے جو دھاندلی کا انتظام قبل از وقت کرنے کی بجائے ریٹرننگ آفیسرز کو اپنا پیغام الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پہنچاتے ؟۔اگر دھاندلی اسی کا نام ہے تو پھرخاں صاحب جوالیکشن سے پہلے نیوز چینلز کے اینکرز کو لکھ لکھ کر دے رہے تھے کہ وہ دو تہائی اکثریت سے جیتیں گے ، اسے کیا نام دیں گے ؟۔بین الاقوامی ”پول” اورتجزیے تو نواز لیگ کی ہی واضح اکثریت دکھا رہے تھے پھر وہ کونسا ”غیبی”ہاتھ تھا جس نے خاں صاحب کو دو تہائی اکثریت کی یقین دہانی کروائی؟۔
اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو نواز لیگ تو اُس وقت بھی قومی اسمبلی کی90 سے زیادہ سیٹیں اور پنجاب کی حکومت بھی لے گئی جب وہ اپنے بد ترین دشمنوں میں گھری ہوئی تھی ۔اس وقت تویہ عالم تھا کہ بہت سی سیٹوں پر نواز لیگ کو مناسب امیدوار ہی نہ ملے لیکن جہاں بھی اُن کے امیدوار کھڑے ہوئے ، تقریباََ جیتے۔کیا اُس وقت میاں برادران نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر دھاندلی کی تھی؟۔ انداز مزاحیہ سہی لیکن سچ کہا ہے پرویز رشید صاحب نے کہ اگر نواز لیگ کے بس میں ہوتا تو وہ پنکچر لگانے کی بجائے تحریکِ انصاف کی پوری ٹیوب ہی پھاڑ دیتی۔
اہلِ سیاست نہ سہی لیکن قوم تو دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف اللہ کے سپاہی مصروفِ جہاد ، شمالی وزیرستان کے انسانوں کا سمندر ، گرمی اور بھوک سے بلک بلک کر جان ہارنے والے شیرخوار، سنگلاخ چٹانوں پر پیدل سفر کرتی بوڑھی عورتیں اور نا تواں کہن سالہ مرد جبکہ دوسری طرف ہوسِ اقتدار کے حریص سب کچھ تہس نہس کرنے کے لیے تیار۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اِس دورِ منور میں سرِ ارض ہے جیسا انسان کو ایسا کبھی خو نخوار نہ دیکھا