محترم عمران خاں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرف سے بھیجے گئے ہتکِ عزت کے نوٹس کے جواب میں چھ صفحات پر مشتمل ”معذرت نامہ”بھیجا جس میں اُنہوں نے چودھری صاحب کو پاکستان کے ہر ڈیری فارم کا”مکھن”لگانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ انہوں نے ملک میں قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے افتخار محمد چودھری کے عہدساز فیصلوں کو سلام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اُن سے” مایوسی میں”سخت زبان استعمال کرنے کی غلطی ہوگئی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مستقبل میں جب کبھی کسی فوجی طالع آزماکے دل میں اقتدار پر شب خون مارنے کی خواہش اٹھے گی تو افتخار محمد چودھری کا فیصلہ اُس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہو گا۔
اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ سابق چیف جسٹس کی خدمات کے معترف ہیں اور چیف جسٹس صاحب نے آزاد عدلیہ کے لیے جس طرح فوجی آمر کا مقابلہ کیا اس پر پوری قوم اُن کو سلام پیش کرتی ہے۔ اُنہوں نے اقرار کیا کہ اُن سے الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی جس پروہ سابق چیف جسٹس صاحب سے درگزر کے خواستگار ہیں۔ خاں صاحب کے اِس”معذرت نامے”پرابھی لے دے ہوہی رہی تھی کہ انہوں نے ایک اور”یوٹرن”لے لیااور دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر چیف جسٹس صاحب پر برس پڑے اور صاف صاف کہہ دیا کہ اُن کے مینڈیٹ کی چوری میںسب سے بڑا ہاتھ افتخار محمد چودھری کا ہے۔
مجھے یہاں ایک پرانا گھسا پِٹا لطیفہ یاد آرہا ہے، آپ بھی سُن لیجئے۔ایک وزیرنے ایک دفعہ پاگل خانے کا دورہ کیا۔ وہاں اُس کی ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ وجیہہ و شکیل شخص سے ہوئی۔ دَورانِ گفتگو وزیر صاحب اُس شخص سے بہت متاثر ہوئے اور پوچھا کہ وہ پاگل خانے میں کیوں ہے؟۔ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ پاگل ہرگز نہیں، درحقیقت اُس کے رشتہ داروں نے اُس کی جائیداد ہتھیانے کے کیے سازش کرکے اُسے پاگل خانے بھجوا دیا۔ وزیر نے کہا”فکرنہ کرو۔ میں ابھی تمہاری رہائی کاحکم جاری کرواتا ہوں۔
یہ کہہ کر وزیر صاحب واپس جانے کے لیے پلٹے تو اس شخص نے ان کی کمر پر زور سے لات رسید کرتے ہوئے کہا”بھولنا نہیں۔ وزیر نے مسکرا کر کہا”اب تو بالکل نہیں بھولوں گا۔ ہمیں یقین ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب بھی ”اب تو بالکل نہیں بھولیں گے”۔پتہ نہیں یہ محترم عمران خاں صاحب کا بھولپن ہے یا کچھ اور لیکن وہ آجکل بہر حال یہی کچھ کررہے ہیں۔ وہ صبح ایک بات کرتے ہیں تو شام کو دوسری۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ صرف اِس لیے ہورہا ہے کہ خاں صاحب کی سچائی پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں اور وہ غصّے، دُکھ اور پریشانی کے عالم میںوہ کچھ بھی کہہ جاتے ہیں جو قومی سطح کے کسی بھی لیڈر کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
اُدھر سونامیے دھرنے سے آہستہ آہستہ کھسکتے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف شیخ الاسلام کے عقیدت مند ایسے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کہ اُن کے درمیان سے ہوا کا گزرنا بھی محال ہے۔ اگر علامہ صاحب تھوڑی سی ہلچل محسوس کرتے ہیں تو فوراََ حضرت امام حسین کی کربلا کی اُس رات کا ذکر لے بیٹھتے ہیں جب آپ نے چراغ گُل کروا دیئے اور فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جو اُن کا ساتھ چھوڑ کے جانا چاہتا ہے، چلا جائے، اُنہیں کوئی گلہ نہ ہوگا۔ جب دوبارہ چراغ جلائے گئے تو کوئی ایک شخص بھی اپنی جگہ سے ہلاتک نہ تھا۔علامہ صاحب بھی اپنے آپ کو حسینیت کے علمبردار کہتے ہیں جو یزیدیت کے خلاف میدان میں نکلے ہیں۔
وہ بھی اپنے عقیدت مندوں کو متواتر یہ کہتے رہتے ہیں میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں، جو میرا ساتھ چھوڑنا چاہے چھوڑ جائے۔ ایسا کہتے ہوئے اُن کی آواز ہمیشہ بھرّا جاتی ہے اور پلکیں نَم۔ ویسے علامہ صاحب کو کبھی آنکھیں بند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ عقیدت مند پہلے ہی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں تو علامہ صاحب مسحور کر دینے کے فن میں یکتا ہیں لیکن عقیدت مندوں کی تائید حاصل کرنے کا فَن اُنہوں نے الطاف بھائی سے سیکھا ہے۔ الطاف بھائی نے بھی متعدد بارایم کیوایم کی قیادت سے دست برداری کا اعلان کیا لیکن پھر”پبلک کے پُر زور اصرار پر”اعلان واپس لیتے رہے۔ اب علامہ صاحب بھی وہی حربہ اپنے عقیدت مندوں پر آزما رہے ہیں اور الطاف بھائی کی طرح کامیاب بھی ہیں۔ شاید اسی قدرِ مشترک کی وجہ سے علامہ صاحب اور الطاف بھائی کی گاڑھی چھنتی ہے۔
Imran Khan
ویسے تو خاں صاحب نے بھی سونامیوں کا دل بہلانے کے لیے”میوزیکل کنسرٹ”کا اہتمام کیا اور یہ حربہ کچھ دن کامیاب بھی رہا لیکن خاں صاحب کے پر انے ”لنگوٹیے”چودھری نثار احمد نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔اُنہوں نے 25 اگست سے وفاقی حکومت کے تمام تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کر دیا۔ اب لڑکے لڑکیاں تو اپنے اپنے تعلیمی اداروں کے ہو رہے اور خاں صاحب کا شوفلا پ۔شنید ہے کہ 25 اگست کی شام کو دھرنے میں شریک سونامیوں کی تعداد صرف گیارہ سو تھی۔ دروغ برگردنِ راوی،اب خاں صاحب اپنے دوست چودھری نثار کی اِس شرارت پر متواتر گنگنا رہے ہیں کہ
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
سونامیوں کی مایوس کُن تعداد کو دیکھتے ہوئے خاں صاحب نے بالآخر اپنا ایک”پتّا”استعمال کرہی ڈالا۔ تحریکِ انصاف سے وابستہ سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشنر محمد افضل خاں نے محترم عمران خاں کے ”پسندیدہ نیوز چینل”کو انٹرویو دیا جس میں اُنہوں نے تقریباََ وہی الزامات دہرائے جوہم کئی ماہ سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ اِس انٹرویو کی سب سے مزیداربات یہ تھی کہ افضل خاں صاحب کے پاس الزامات کی صداقت کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا لیکن اُن کی بھی کپتان صاحب کی طرح یہی ضدتھی کہ کسی بھی ثبوت کے بغیر اُنہیں”صادق”تسلیم کر لیا جائے لیکن قوم کیسے یقین کرے کہ اُنہوں نے تو”فخرو بھائی”کوبھی دھاندلی میں ملوث قرار دے دیا اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو بھی۔
جسٹس (ر) ریاض کیانی صاحب نے اپنی طویل پریس کانفرنس میں افضل خاں کا سارا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا اور یوں خاں صاحب کایہ”پتّا”بیکارہی گیا لیکن اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ابھی خاں صاحب کی ”پٹاری”میں بہت کچھ باقی ہے اور پٹاری کامُنہ اُس وقت تک کھلتا رہے گا جب تک وہ نیا پاکستان بنا کر شادی نہیں کرلیتے۔ ویسے ہمارا تو خاں صاحب کو یہی مشورہ ہے کہ پہلے شادی کرلیں پھر آرام سے نیا پاکستان بنالیں۔