ریاض راہی، ڈاکٹر خیال امروہوی کاحقیقی جانشین

Riaz Rahee

Riaz Rahee

تحریر : ایم آر ملک

معروف انقلابی شاعر اور خیال انگیز دانشور ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ ! ”علمی و ادبی طوائفیں چڑیلوں کی طرح رقصاں ہیں یا پھر شاعری کے خواجہ سرا علت الادب کیلئے بولائے پھرتے ہیں ادب کے تقاضے ہمیشہ عصری ہوتے ہیں اور جو ادب یہ تقاضے پورے نہیں کرسکتا وہ ادب نہیں کہلاتا اس اعتبار سے ہمارے یہاں اہل قلم عصری تقاضے پورے نہیں کرسکتا ”۔

عصر حاضرکے عظیم دانشور کی فکر ہمارے آج کی عکاس ہے تخلیق اور سرقہ نویسی کے درمیان ایک خلیج حائل ہے تخلیق کار بہت کم ہیں کیونکہ تخلیق خدا کی عطا ہے اور یہ وصف بہت کم افراد کے حصے میں آتا ہے جنوبی پنجاب میں ہم پروفیسر ریاض احمد راہی کوتخلیق کی اس نہج پر پاتے ہیں جہاں شعری ادب جدید دور کے تقاضوں اور رعنائی کے اعتبارسے اپنے قد کے ساتھ کھڑا ہوانظر آتا ہے زمانے کا تجربہ ہمیں باطنی زندگی میں ہوتا ہے اور انسانی خودی یادل حقیقت اشیاء کی پیمائش کا پیمانہ اور معیار ٹھہرتا ہے گویا تحقیق زمانہ دل کی کیفیت سے جدا نہیں شاعر اپنے وجدانی ذوق کے ذریعے اس حقیقت کا راز ہم پر کس لطف کے ساتھ منکشف کرتا ہے حمد جو باقاعدہ صنف سخن ہے اور اپنی فکری ارفعیت اور فنی عظمت کے حوالے سے ان تمام خصوصیات اور صفات پر پوری اُترتی ہے جو کسی بھی صنف کیلئے ضروری ہے ریاض راہی کے حمدیہ اشعار ہر لحاظ سے فکری اور فنی معیارات کے امیں ہیں ان کے باطنی احساسات اور جذبات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حمد اور نعتیہ اشعار کی تخلیق میں محاسن کے اعتبار سے وہ ارفع ادب کے درجہ پر فائز ہیں۔

ذرے ذرے میں عیاں لیکن نظر سے بھی نہاں
وحدت و کثرت ،صفات و ذات سے جلوہ کناں

یہ شعر بارگاہ ایزدی میںاطاعت وعاجزی کے سارے اوصاف لئے ہوئے ہے
اسی طرح نبی اکرم ۖکی شان اقدس میں لکھے گئے نعتیہ اشعار عقیدت کی ارفعیت اور عظمت کی انتہا پر نظر آتے ہیں
بہت طلاطم ہے بحر ِ عصیاں کوئی جائے اماں نہیں ہے
حضورۖ!ساحل ہے کشتی ِ بے اماں لگانا ہمیں بچانا

ہمارے ہاں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جس کو چند الفاظ کی ادائیگی آگئی اس نے اپنے نام کے معروف شاعر اور دانشور کا لاحقہ لگا لیا ایسے لوگوں نے کتابیں چھاپ چھاپ کر ہر ہاتھ میں تھمادیںمگر نہ تو وہ عروضی آہنگ سے واقف ہیں اور نہ ہی وہ اندر سے شاعر ہیں ایسے افراد جو شاعری کی ابجد سے واقف نہیں انہوں نے ادب پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے چونکہ یہ کتابیں چھاپنے کے ماہر ہیں حسیات کے اسی فقدان نے عام قاری کو حقیقی شاعری سے دور کردیا ہے اس کے باوجود ریاض راہی جیسے حقیقی شاعروں کا سارا طلسم ان کے منفرد لہجے اور بے باک اظہار خیال کی جرات میں موجود ہے ایسینام نہاد شعرا کے منہ پر طمانچہ ان کی شاعری کا وصف ہے۔

اس عہدِ روشنی میں جو ظلمت فروش تھے
فانوس بن گئے ہیں وہ دربار ِ شاہ میں
معنویت اور مزیت کی تہوں میں چھپا ان کا کلام نظر آتا ہے معاشرے کی بدلتی اقدار ،شرفاء کے دوہرے معیار ،مذہب کے ٹھیکیداروں اور عام عوام کی حالت زار ان کا طنز بھر پور انداز لئے ہوئے ہے

یہ درگاہ ِسخن ہے اس کا ہر انداز عالی ہے
امیر شہر کی ہم نے یہاں پگڑی اچھالی ہے
محبت کا ذکر خیر کرنا اور کرتے چلے جانا اور بات ہے جبکہ محبت میں اس طرح رچ جانا کہ شعر سے محبت کی خوشبو آنے لگے ایک بالکل مختلف عمل ہے حسن کی شاعری پڑھ کر قاری یہ تسلیم کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ ایسے اشعار محبت کے تجربے سے گزر کر ہی لکھے جاسکتے ہیں مطالعے کے زور پر نہیں

اُس گلبدن کے سامنے عقل و خرد کہاں
دل ہاتھ سے نکل گیا پہلی نگاہ میں

راہی نے لوح ِ دل پر جو الفاظ لکھے ہیں اُن میں خلش درد اور کشش کے ساتھ کششِ جنوں کی حسین آمیزش بھی ہے ان کی آنکھیں اُن خوابوں کو تلاش کر رہی ہیں جو آنسوئوں میں ڈوبے ہوئے ہیں فکر کے آسماں پر روشنیاں ہی نہیں اشکوں میں مستور موتی بھی ہیں اُن کی فکر رسا غزلیہ شاعری سے زیادہ قریب ہے واردات قلبیہ اور رموز ذہنیہ کے اتصال سے آفاق کی نمائندگی ہوتی ہے۔

کیا یہ انداز وفا ہے ؟ کہ زباں پر کچھ ہو
دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے پھرتے رہنا
ایسا جینا بھی ہے کیا جینا کہ اپنے دل میں
خواہش مرگ دبائے ہوئے پھرتے رہنا
ریاض راہی کی جدوجہد کی راہیں بڑی مختلف ہیں ان کی فکری سطح کے طاقتور ہونے کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ ان کے حریف سرقہ نویس ان کی فکر کے سمندر میں شل ہوکر ڈوب رہے ہیں اسے اُن کی فکر کا خوف ہی کہا جاسکتا ہے کہ پچھل پیریاں اپنی سرخ زبانوں سے جو وہم ٹپکاتی رہیں وہ حقیقت بن گئی تاہم راہی اس ادراک کے ساتھ محو سفر ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں نئی فکر کی بنیادیں رکھ رہا ہے جس کی بنیاد جاگیر داری نظام پر رکھی گئی ،ملائوں کی وجہ سے معاشرہ انجمادی کیفیت کا شکار ہوچکا ،جہاں عوام شدید درد و کرب میں مبتلا ہیں ،احساس محرومی بڑھ رہا ہے راہی کے ہاں اسی المیئے نے سوز و گداز پیدا کیا ،ان کی شاعری میں جو تلخی اور بیزاری نظر آتی ہے وہ اسی طرز احساس کے سبب پیدا ہوئی وہ بھی چہروں کے بجائے نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے خواہاں ہیں۔

افق پہ لاکھ مسلط ہوں ظلمتیں لیکن
ستم زدہ کو طلوعِ سحر کی آس تو ہو
راہی کسی بارگاہِ سلاست کے محتاج نہیں عصر حاضر میں شاعری کے چہرے پر یہ بات ایک تازیانہ ہے کہ ان گنت شاعر قسم کے لوگ جنہوں نے دوسروں کا کلام چرا کر شاعری میں اپنا نام لکھوایا شاعری کا جلوس نکالنے میں پیش پیش رہے کئی نام نہاد شاعر حضرات چربہ سازی کے بل بوتے پر دھڑا دھڑ کتابیں چھپوا رہے ہیں اور خود کو ادب کا علم دار سمجھنے لگے ہیں ان کی چربہ سازی سے سنجیدہ شاعری کو نقصان ہورہا ہے ہم ادبی زوال پذیر معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں حقیقی اور جینوئن ادیب وشاعر جنہوں نے معاشرے کی اوسط عقلیت کو بڑھانا تھا دو نمبر شعرا اس اوسط عقلیت کو بڑھانے کے بجائے خود اوسط عقلیت سے نیچے پہنچ گئے اور یہ کام انہوں نے محض سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے کیاوہ فکری سطح سے گر گئے تاہم شاعری کی حقیقی روح کو راہی جیسے شعراء زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک