رحیم یار خان : سینئر بینکار اور معاشی تجزیہ نگار ممتاز بیگ نے بتایا کہ یہ امیروں کا امیروں کیلئے ایک بجٹ ہے جو مکمل طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی خواہشات کے عین مطابق نظرآرہاہے جس سے غربت اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ۔گزشتہ کی طرح یہ بھی خسارہ کا بجٹ ہے۔
سیکرٹریوں کی تنخواہوں میں 100فیصد اور عام ملازمین کی تنخواہ میں ساڑھے سات فیصد اضافہ چھوٹے ملازمین کے ساتھ مذاق ہے۔ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے جس سے عوام کا کچومر نکل آئے گا۔بجٹ میں پیش کئے اقدامات کی باریکیاں چند دن میں اور اس کے پنجے اور شکنجے یکم جولائی تک میدان میں آجائیں گے۔بجٹ اعداد کی شعبدہ بازی ہے ۔ٹیکس در ٹیکس کے نظام کو ختم کرنے کیلئے کوئی تجویز نہیں دی گئی۔
بڑے صنعتکار اس دفعہ پھر فائدے میں رہ گئے ہیں۔بنک ریٹ مزید کم کرکے 6 فیصد کرنے سے بھی صرف بڑے صنعتکار ہی فائدہ اٹھائیں گے جبکہ چھوٹی سرمایہ کاری پر منافع کم ہونے سے عام آدمی نقصان میں رہے گا۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی موجودگی میںبجلی پر سبسیڈی کا اعلان محض ڈرامہ ثابت ہوگی۔کم از کم تنخواہ 12 ہزار سے بڑھا کر 13 ہزار کرنا اچھا اقدام ہے جس پر عمل درآمد کرانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے اورسستی بجلی پیدا کرنے کیلئے بڑے ڈیم بنانے جیسے اہم ایشوز کو اس بجٹ میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔