ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک زندگی صرف دو حصوں میں ہی منقسم نظر آتی ہے۔ ایک طرف غربت اور دوسری طرف امارت ہے۔ کسی بھی شخص کو اپنی پیدائش پر اختیار نہیں ہوتا، کوئی ارب پتی کے ہاں پیدا ہوتا ہے اور کوئی فقیر کے ہاں۔ امیر کے ہاں پیدا ہونے والوں کو محاوراً سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے سے تشبیہ دی جاتی ہے، جبکہ غریب کے بچے سونے کا چمچہ تو دور کی بات پیتل کا چمچہ بھی نہیں رکھتے۔ہماری دھرتی پر ایک طرف سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والوں کی کمی نہیں تو دوسری طرف بھوکے پیٹ سونے والوں کا بھی شمار نہیں ہے۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے عمر بھر دولت میں کھیلتے ہیں۔ایسے بچے جو ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں گھومتے ہوں، انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہوں، امریکا اور یورپ میں چھٹیاں گزارتے ہوں، دبئی اور سنگاپور میں شاپنگ کرتے ہوں، لندن اور واشنگٹن کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرتے ہوں، سونے کے برتنوں میں کھاتے ہوں۔
گلے میں سونے کی زنجیر اور انگلیاں سونے کے چھلوں سے بھری ہوں، موبائل فونوں پر سونے کے بنے ہوئے خول چڑھے ہوں، سونے کے قلم جن کے جیبوں کی زینت ہوں، جن کی آستینوں میں سونے کے بند ہوں، جو کریڈٹ کارڈ سے آناً فاناً لاکھوں روپے کی خریداری کر ڈالیں، جن کے غسل خانوں میں سونے کے نلکے لگے ہوں، حتیٰ کہ جن کے منہ میں ایک آدھ دانت بھی سونے کا ہو تو ایسے سنہری شہزادوں اور شہزادیوں کو غریبوں کی کیفیت کا اندازہ کہاں ہوگا۔ ان لوگوں کے نزدیک غربت مٹانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ پنسل سے غربت لکھ کر ربڑ سے مٹادو۔ ایک ایسے ہی ارب پتی خاندان کی ایک لڑکی کو اسکول میں غربت پر مضمون لکھنے کیلئے کہا گیا اور اُس کی قلم مبارک سے جو ”انمول الفاظ” نکلے وہ کچھ یوں تھے ، ”اس دُنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ محض لفاظی نہیں بلکہ کڑوا سچ ہے کہ امیر طبقہ امیر تر اور غریب طبقہ جو اکثریت پر مشتمل ہے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ میں اپنے اس مضمون میں ایک ایسے ہی خاندان کی کہانی بیان کر رہی ہوں جو بہت ہی غریب تھا۔ باپ غریب، ماں غریب، بچے بھی غریب، صرف دس نوکر تھے وہ بھی غریب۔ کار بھی ٹوٹی ہوئی بی ایم ڈبلیو تھی، ڈرائیور بچوں کو اسی ٹوٹی ہوئی کار میں اسکول چھوڑتا تھا۔
Rich Poor Kids
بچوں کے پاس پرانے آئی فون اور بلیک بیری تھے۔ غربت کی وجہ سے اُن کا پالتو کتا دن میں صرف ایک وقت ہی بکرے کا گوشت کھاتا، جبکہ پستہ اور بادام ہفتے میں دو یا تین بار ہی اُسے نصیب ہوتا تھا۔ خاندان کے غریب سربراہ کو وراثت میں صرف پچاس ایکڑ زرعی زمین، ایک خستہ حال پٹرول پمپ، تین سو بکریاں، چالیس اونٹ، دس گدھے اور پندرہ دکانیں ملی تھیں۔ بیچارے غریب باپ کو کاروبار میں اکثر لاکھوں کا نقصان بھی ہو جاتا تھا۔ بچے مہینے میں صرف تین بار ہی فائیو سٹار ہوٹل جا پاتے تھے اور اکثر اوقات بیچارے اپنے ہی ملک میں چھٹیاں گزار لیتے۔ غریب کے گھر میں سب سے زیادہ مظلوم اُس کی بیوی تھی جو ابتر معاشی حالات کے باعث بہت کم ہی بیوٹی پارلر جاتی اور اُسے ہر نیا سوٹ دس سے پندرہ بار سے بھی زیادہ پہننا پڑتا، جس کی وجہ سے وہ آئوٹ آف فیشن ہو جاتا تھا۔ اس غریب کنبے کا بیرون ملک کوئی بینک اکائونٹ بھی نہیں تھا البتہ بچوں کے پاس تقریباً تین لاکھ روپے مالیت کے سیونگ سرٹیفکیٹ ضرور تھے۔ گھر میں صرف چار ہی سیکنڈ ہینڈ اے سی تھے۔
اس خاندان کی غربت کا یہ حال تھا کہ گھر کا چولہا جلانا تو دور کی بات بجلی کا بل بھی نہیں دے سکتا تھا، اس لیے اکثر کھانا کسی سستے ہوٹل سے منگواتا اور ہزاروں روپے کے بل سے بچنے کیلئے مجبوراً بجلی چوری کرنا پڑتی۔ اس خاندان کے پاس پینے کو منرل واٹر بھی کم مقدار میں ہوتا اور وہ پیسے بچانے کیلئے ہمیشہ منرل واٹر کی ایک ہی بڑی بوتل خریدتا۔ یہاں تک کہ زیادہ گرمی میں وہ جوس پینے کے بجائے اس پانی پر ہی گزارہ کرتا۔ غرض سارا خاندان بڑی مشکل سے ہی عیش کر رہا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ غریب نہ صرف خود غریب ہوتا ہے بلکہ اس کا نوکر، ڈرائیور، مالی، باورچی اور چوکیدار تک بھی غریب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں مل کر غربت کے خاتمے کیلئے اپنی جدوجہد کرنی چاہئے۔ یہاں بات چونکہ غربت کے خاتمے کی ہو رہی ہے، اس لیے سوچتی ہوں کہ کیوں نہ اس مضمون کے آخر میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ بھی بیان کردوں۔ میرے ڈیڈی ایک انتہائی غریب پرور انسان ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن ایک غریب عورت اُن کے پاس آئی اور التجا کی کہ میرے گھر میں آٹا ختم ہو گیا ہے، لہٰذا میری کچھ مدد کریں۔ یہ سن کر ڈیڈی نے کہا ! جی کوئی بات نہیں، آپ پیسے دیں میں لا دیتا ہوں۔ پہلے تو بوڑھی اماں نے آنکھیں پھاڑ کر انتہائی حیرانگی سے ڈیڈی کی طرف دیکھا لیکن پھر پیسے دے ہی دیئے۔
Poor Peoples
شاید وہ اس لیے حیران ہو رہی تھی کہ اتنا امیر آدمی ایک غریب کی بات کیسے مان گیا۔ خیر! جب ڈیڈی اپنی مرسڈیز گاڑی میں آٹا لینے بازار جانے لگے تو میں نے بھی ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کر دی۔ راستے میں ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک خالی پلاٹ میں بیٹھے گھاس توڑ کر کھا رہے ہیں۔ ڈیڈی نے فوراً گاڑی روکی اور گھاس کھانے والوں کے پاس جا کر کہنے لگے کہ مجھے تم پر ترس آ رہا ہے، اتنی بھوک چلو سب میری گاڑی میں بیٹھو۔ بھوکے بھاگتے ہوئے ہماری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے تو ڈیڈی نے گاڑی چلا دی۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بھوکوں میں سے ایک نے سب کا ترجمان بن کر کہا جناب ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے ہماری بھوک دیکھ کر ہم پر ترس کھایا مگر آپ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں؟ غریبوں کے ترجمان کی بات سن کر ڈیڈی بولے، یار !میں تم سب کو اپنے گھر لے جا رہا ہوں۔ جس پلاٹ میں تم بیٹھے تھے وہاں تو گھاس بھی چھوٹی چھوٹی تھی، میرے گھر کے صحن میں گھاس چھ انچ اونچی ہے، وہاں تم سب اطمینان سے جتنی مرضی گھاس کھانا۔”