تحریر :ایم سرور صدیقی علامہ اقبال نے کہا تھا وجود زن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں فسادکا ایک سبب ۔۔ایک بنیاد یقینا عورت کا وجود بھی ہے تاریخ میں اس صنف نازک نے شجاعت و بہادری کی نئی تاریخ بھی رقم کی۔ دلوں اور ملکوں پر حکمرانی بھی کی اور بڑے بڑوں کو تگنی کا ناچ بھی نچا دیا اس کائنات کا پہلا قتل اور دنیا کی سب سے بڑی جنگ ”اوٹرائے” بھی عورت کی وجہ سے ہوئی دنیا کی ہر زبان اور ملک میں شاعروں ،افسانہ نگاروں اور گیتوںکا موضوع گیسو،رخ،رخسارہیں عورت کی خاطرکئی افراد سلطنتوںسے دستبردارہوگئے اس کے باوجودعورتوںکی اکثریت مظلوم ہے، ان کے ساتھ سماجی،جنسی،سیاسی، معاشرتی استحصال کی کہانیاںہرروز منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں جس سے تصویر ِکائنات کے رنگ پھیکے پھیکے پڑ جاتے ہیں زمانہ قدیم سے شاید آج تلک عورت کو دل بہلانے کی چیز سمجھا جاتاہے دنیا جہان کی اشتہاری مہم،فلیکس،اخباری ایڈوٹائزمنٹ الغرض کہ ہرجگہ عورت کو استعمال کیا جاتاہے ظلم تو یہ ہے کہ جو چیزیں مردوںکیلئے مخصوص ہیں ان میں بھی بلادریع عورت کو دکھانا انٹرکشن سمجھا جاتاہے کچھ عرصہ قبل بلیڈکا ٹی وی میں اشتہار دیکھا مردشیو کرکے فارغ ہوتاہے
ایک عورت نہ جانے کہاں سے نمودارہوتی ہے مرد کے قریب جاکراس کی گالوںپر ہاتھ پھیرکرکہتی ہے وائو !کیا شیوہے؟۔۔۔یعنی مصنوعات کو پرکشش بنانے کے چکر میںعورت کو ایک جنس بناکررکھ دیا گیا ہے۔۔۔ہم جس معاشرے میںجی رہے ہیںاسے خالصتاً مردکا معاشرہ کہا جاتاہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والی90%پراڈکٹ کا براہ ِ راست تعلق عورت سے ہے لیکن پھربھی عورتوںکی اکثریت مظلوم ہے۔ بہت زیادہ روشن خیالی،آزاد ماحول اور تعلیم کے بڑھتے پھلتے پھولتے اثرات کے باوجود ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوںکی آج بھی کمی نہیں جو اب بھی عورت کو پائوںکی جوتی سے برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں حالانکہ عورت۔۔۔ ماں ہوتو جنت۔۔بیوی کے روپ میں راحت۔۔بہن کی صورت میں غیرت اور بیٹی کی شکل میں رحمت ہوتی ہے۔۔کہیں جائیداد میں بٹوارے کے خدشہ کے پیش ٍ نظر اس کا قرآن سے نکاح کردیا جاتاہے۔۔کبھی پسندکی شادی کی پاداش میں ” کاری ”قراردے کر سنگسارکرنے کا رواج ہے ۔۔۔کبھی علاج کے بہانے پاگل خانہ بھیج دیا جاتاہے۔۔
کبھی کردارپرشک کے الزام میں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا دراصل عورت سے جان چھڑانے کا سب سے تیز بہدف نسخہ یہی ہے کہ اس کے کردارکو مشکوک بنادیا جائے۔لاہورکے ایک شکی مزاج خاوندنے ایک عجیب و غریب طریقہ دریافت کرڈالا اس نے سب وہمی لوگوںکو مات دیدی ہے بیوی کی جاسوسی کے لئے شوہر کا انوکھا انداز۔۔۔جو کبھی دیکھا نہ سنا اس نے بیوی کے پیٹ میں” ٹریکر” فٹ کروادیا غازی آبادکی رہائشی صغریٰ بی بی نے ایڈیشنل ایند سیشن جج صفدرعلی بھٹی کی عدالت میں درخواست دائرکی ہے کہ اس کا خاوند سلیم اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اسے بدکاری پر مجبور کرتا تھا جس پر وہ اپنے خاوندسے علیحدٰہ ہوگئی مگر سلیم نے اسے اغواء کرکے اس کے پیٹ میں ٹریکر لگوادیا اب وہ اس کے ہر لمحے کی جاسوسی کرتاہے اور بلیک میل کررہاہے ڈاکٹر ٹریکر نکالنے کیلئے دو لاکھ مانگ رہے ہیں۔۔لہذا۔عدالت سلیم اس کے دونوں ساتھیوں اکرم آزاد اور منظور کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے اور اس کے جسم سے سرکاری خرچ پر ٹریکر نکالا جائے۔کیا زمانہ آگیاہے خاتون کے پیٹ میں ٹریکر۔۔گویا وہ انسان نہ ہوئی کوئی موٹر کار ہوگئی۔۔۔ زمانہ ٔ قدیم میں تو سر ِ عام عورتوںکی منڈیاں لگا کرتی تھیں سناہے آج بھی بیشترممالک میں کسی نہ کسی شکل میں یہ کاروبار جاری ہے۔
Money
جسم فروشی کے چرچے تو شہر شہر گائوں گائوں میں ہیں دولت کی ہوس نے تو سب کچھ تباو کرکے رکھ دیا ہے آج جب دنیا نے بے حدو حساب ترقی کی ہے لیکن عورت کی حالت اور اس سے سلوک زمانہ ٔ قدیم جیسا ہی روا وکھا جاتاہے ۔ ہم اپنے ارد گرد نظردوڑائیں تواحساس ہوگا جہاں عورت کو عزت و تکریم دینے والے بھی موجود ہیں وہاں بہت سے احساس سے عاری دیوث بھی موجود ہیں جو انتہائی گھنائونے کاموںمیں ملوث ہیں اور ان کے نزدیک صرف روپیہ پیسہ ہی اہم ہے انسانی جذبات،اخلاقی اقدار اور مذہبی حد کی کوئی اہمیت نہیں اب متاثرہ خاتون صغریٰ بی بی کو ہی لے لیجئے۔۔۔ بیوی کوبدکاری پر مجبور کرنا کس قدر گھنائونا کام ہے اوپر سے اس کے پیٹ میں” ٹریکر” فٹ کروادینا کس قدرکمینگی ہے ایسے افرادکے ساتھ ساتھ اس ڈاکٹرکو بھی عبرت کا نشان بنا دیا جائے جس نے چند روپوںکی خاطرمسیحائی بیچ ڈالی۔ہمارا معاشرہ کس طرف جارہاہے دولت کی اندھی ہوس نے کتنے مسائل پیدا کردئیے ہیں ہمیں خود بھی احساس نہیں اس کی بنیادپر گھر ٹوٹ رہے ہیں نفرتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور ہمارا سماجی ڈھانچہ دھڑام سے گرنے والاہے
اسلام دنیا کاواحد مذہب ہے جس نے عورت کوعزت سے نوازا۔۔اسے اعلیٰ مقام عطا کیا اب تو مسلمان عورتیں بھی آرائش و زیبائش میں مغربی ماحول سے کم نہیں کہتے ہیں دنیا کی تمام رنگینیاں عورت کے دم قدم سے ہیں شاید اسے بنیاد بناکر بڑے ہوٹلوں میں کیٹ شو،فیشن ڈیزائن اور برائیڈل مقابلوں کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جاتاہے ہماری نامی گرامی شخصیات شرکت کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں کہیں اعضاء کی شاعری کے نام پر ناچ گاناہوتاہے یہ ساری باتیں یہ تمام کام عورت کی عزت نہیں بلکہ فطرت کے خلاف عوامل ہیں اور جنسی بے راہروی کا ساخشانہ بھی۔جس سے مذہب سے بیزارمعاشرہ تشکیل پارہاہے جس میں عورت محص دل کے بہلانے والا کھلونا سمجھا جاتاہے اوریوں عورت کااحترام ہوتا جارہاہے یہ طرز ِ عمل ،یہ رویہ،یہ سلوک انتہائی خطرناک ہے جب کسی کااحترام ختم ہو جائے تواس کی اہمیت یقینا کم ہو جاتی ہے۔بہترین معاشرے کے قیام کیلئے عورت کی عزت و تکریم انتہائی ضروری ہے اور یہ بات ہے بھی پر فیکٹ جو معاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا تباہ ہو جاتاہے شاید اسی لئے ہم تباہی کے گڑھے پر پہنچ چکے ہیں۔