۔،۔ دھاندلی پرخاموشی ۔،۔

عدلیہ بحالی کی تحر یک کے بعد عدلیہ کا رویہ بہت زیادہ بدلا ہوا ہے اور وہ کسی بھی ادارے کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہی ۔ آزاد عدلیہ ہر پاکستانی کی خوا ہش ہے اور اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر عوام نے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی بحالی کی تاریخی جدو جہد کی تھی لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بھی آزاد عدلیہ کی منزل بہت دور ہے ۔ عدلیہ سے جس طرح کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلوں کی توقعات کی جا رہی تھیں عدلیہ اس طرح کے فیصلے دینے میں ناکام رہی ہے۔

Silence

Silence

دوسرے ریاستی اداروں میں مداخلت اور ایک خاص جماعت کو دبوچنے کے انداز نے اس کی شہرت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ عدلیہ کا انداز آزادانہ ہونے کی بجائے تحمکانہ ہو چکا ہے تو شائد غلط نہ ہوگا ۔ عوام میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ موجودہ عدلیہ کے کچھ ججز میاں محمد نواز شریف کی جانب جھکائو رکھتے ہیں اور دوسری جماعتوں کو وہ اس طرح کی اہمیت نہیں دیتے جو ان کا آئینی حق بنتا جس کا واضح ثبوت ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی لیکشن کمیشن کے خلاف دائر پٹیشن تھی جس میں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی کھل کر تضحیک کی گئی تھی،ان کی دوہری شہریت کو نشانہ بنایا گیاتھا ،ان کا مذا ق اڑایا گیا تھا اور ان کی پٹیشن کو بڑے بھونڈے انداز میں خارج کر دیا گیا تھا حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئینی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔

چیف الیکشن کمیشن فخرا لدین جی ابرا ہیم کا استعفی اس بات کی گواہی دینے کے لئے کافی ہے کہ الیکشن کمیشن میں سیاسی وابستگی کے حامل افراد بھرتی کئے گئے تھے جن کا واحد مقصد چیف الیکشن کمیشن فخر الدین جی ابرا ہیم کو زیرِ پا رکھنا تھا۔چیف ا لیکشن کمیشن فخرا لدین جی ابرا ہیم ایک صاف گو اور شفاف شخصیت کے حامل انسان ہیں لہذا ان کی سبکی اسی طرح کی جا سکتی تھی کہ ان کے ساتھ جو دوسرے ممبرانِ الیکشن کمیشن ہوں وہ ان کی کسی بھی بات کے ساتھ اتفاق نہ کریں اور یوں ان کی شفافیت کا اثر دھیرے دھیرے زائل ہو جائے۔اس مقصد کیلئے سب سے پہلے آئین میں ترمیم کی گئی جسکی روح سے سارے ممبران کو برابری کے اختیارات تھما دئے گئے تا کہ چیف الیکشن کمیشن فخرا لدین جی ابرا ہیم اپنے خصوصی اختیارات کے تحت کوئی بڑا فیصلہ کر کے ساری بازی ہی نہ پلٹ دیں۔

آئینی ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمیشن کے پاس ہی سارے اختیارات ہوتے تھے اور وہ تن تنہا سارے فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا تھا۔شفاف انتخابات میں پہلی نقب یہی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر کسی شفاف شخصیت کا تقرر کر دیا جائے لیکن اس کے دوسرے ممبران من پسند افراد مقرر کر دئے جائیں تا کہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا جا سکے ۔ یہ فارمولا کام کر گیا اور ١١مئی ٢٠١١ کے انتخابات دھاندلی انتخا بات کے نام سے موسوم ہو گئے لیکن اقتدار جسے دیاجانا مقصود تھا اسے دلوا دیا گیا۔۔

اللہ اللہ خیر سلا۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف الیکشن کمیشن فخرا لدین جی ابرا ہیم شفاف،منصفانہ اور غیر جانبدار انتخابت کروانا چاہتے تھے لیکن ان کے ساتھ جو جونکیں چمٹا ئی گئی تھیں انھوں نے شفاف انتخابات پر پانی پھیر دیا۔عجیب المیہ یہ ہے کہ قوم چیف الیکشن کمیشن فخرا لدین جی ابرا ہیم پر تو بالکل متفق تھی اور ان کے اعلی کردار کی قدردان بھی تھی لیکن دوسرے ممبران پر کسی کو بھی اعتماد نہیں تھا۔ استعفے دینے کا وقت آیا تو چیف الیکشن کمیشن فخرا لدین جی ابرا ہیم نے ہی استعفی دیا۔وہ لوگ جن پر سارے انتخابات میں انگلیاں اٹھتی رہیں اور جن کے کردار پر شک و شبہ کا اظہار ہوتا رہا وہ اب بھی اپنے عہدوں پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ برا جمان ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں تا کہ غیر جانبدار ممبران کا تقرر کیا جا سکے اور آ ئیند ہ انتخابات میں دھاندلی کے منصوبوں کا تدارک کیا جا سکے۔۔

انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک کی ساری جماعتوں نے احتجاج کیا اور ان نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔پاکستان تحریکِ انصاف چونکہ ان انتخابات میں الیکشن سویپ کرنے کی امیدیں لگائی بیٹھی تھی لہذا انتخابی نتائج سے اسے سب سے زیادہ دھچکا لگا ۔عمران خان کا اصرار ہے کہ انتخا بات میں دھاندلی کی گئی ہے اور ان کے مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔ انھوں نے کراچی سمیت پورے پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کے ثبوت اکٹھے کئے ہیں اور الیکشن ٹر بیونل میں جمع کروا ئے ہوئے ہیں جن پر تا حال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

انھوں نے پورے ملک سے ایسے ٢٤ حلقوں کی نشاندہی کی ہے جن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے اور وہاں پر دوبارہ گنتی کی د رخواست دائر کر رکھی ے لیکن کوئی ان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔انھوں نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی ہوئی ہے کہ پورے ملک سے صرف چار حلقوں کو ٹیسٹ کیس بنا لیا جائے اور وہاں پر انگوٹھوں کے نشانات سے انتخابی شفافیت کا فیصلہ کر لیا جائے لیکن سپریم کورٹ اس درخواست کو بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔عمران خان کی تحر یکِ انصاف جسے عوام کی اغلب اکثریت نے اپنے ووٹوں سے نواز ہے اس دھاندلی پر عدالت کے دو ٹوک فیصلے کی منتظر ہے لیکن سپریم کورٹ ان کی پٹیشن کو سننے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔عمران خان پر اپنی جماعت کی جانب سے سخت دبائو ہے کہ وہ انتخابی دھاندلی کے خلاف عوامی ا حتجاج کی کال دیں تا کہ نئے انتخابات کیلئے عوام کو سڑکوں پر لا کر شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخا بات کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔

عمران خان ابھی تک عدلیہ سے آس لگائے بیٹھے ہیں اور اس طرح کا فیصلہ کرنے سے گریزاں ہیں لیکن انھیں دیر یا بدیر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ عوامی تحریک کی طاقت سے نئے انتخابات کا انعقاد کروائیں یا موجودہ دھاندلی زدہ اسمبلیوں میں پانچ سالوں تک وقت گزاری کرتے رہیں۔پاکستانی عوام ایک تبدیلی چاہتے ہیں اور اس تبدیلی کی علامت عمران خان بنے ہوئے ہیں لیکن ایک سوچی سمجھی سکیم اور سازش کے تحت اس تبدیلی پر بند باندھ دیا گیا ہے۔عمران خان کا موقف یہ ہے کہ چار حلقوں سے سپریم کورٹ انگوٹھوں کے نشانات کی مدد سے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ سنائے لیکن سپریم کورٹ اس راہ پر چلنے سے کترا رہی ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس طرح کی کاروائی سے پورے انتخا بی عمل کی شفا فیت ہی مشکوک ہو جائیگی ۔عدلیہ بخوبی جانتی ہے کہ انتخا بات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس کے ریٹرننگ افسران بھی دھاندلی کی اس ازش کا حصہ بنے ہیں جس کا عمران خان بار بار ذکر کر رہے ہیںلہذا وہ اس پٹیشن کو سننے پر آمادہ نہیں ہے۔ میری ذاتی رائے میں سپریم کورٹ کو عمران خان کی پٹیشن کو سب سے پہلے سننا چائیے کیونکہ یہ انتہائی عوامی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے پاکستان کی انتخابی سیاست کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔

میں اس بات کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا کہ چھوٹے چھوٹے واقعات پر سوموٹو لینے والی سپریم کورٹ انتخابی دھاندلی جیسے اہم مسئلے کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیوں کر رہی ہے؟افسروں کی تقرریوں،ترقیوں اور تبادلوں پر از خود نوٹس لینے والی سپریم کورٹ ووٹ کے تقدس کی بے حرمتی اور ڈاکہ زنی پر خاموش ہو جائے تو کیا کہئیے گا؟ ووٹ جو مقدس امانت ہے، جس سے عوامی نمائندوں کا چنائوہوتا ہے،جس سے حقِ حکومت تفویض ہوتا ہے،جس سے آئین مدون ہوتا ہے جس سے آئینی ترامیم ہوتی ہیں ،جس سے سے ملکی خزانوں کے استعمال کا حق ملتا ہے۔جس سے وزیرِ اعظم کا انتخاب عمل میں آتا ہے جس سے ریاست کے صدر کا انتخاب ہوتا ہے اور جس کی قوت سے ریاست کا کاروبار چلتا ہے۔

اسی ووٹ کے تقدس کی خاطر پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنی آواز بلند کی ہے جو سپر یم کورٹ کی طبعِ نازک پر گراں گزری ہے اور اسے توہینِ عدالت کے زمرے میں ڈال کر عمران خان کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھجوا دیا ہے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ سپریم کورٹ عمران خان کی اس آواز میں اپنی آواز شامل کرتی اور ووٹ کے تقدس کو مجروح کرنے والوں کو بے نقاب کرتی لیکن اس نے اس آواز کو اٹھانے والوں کو ہی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جو ہر جمہوریت پسند شخص کیلئے اچھنبے کا با عث بنا ہواہے۔عمران خان کسی فردِ واحد کانا م نہیں بلکہ کروڑوں انسانوںکی نمائندگی کرنے والی ایک ایسی شخصیت ہے جس سے پاکستانی عوام دل و جان سے محبت کرتے ہیں لہذا ایسے انسان کو توہینِ عدالت کا نو ٹس دینا کروڑوں انسانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے جو سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے معزز ججز کو زیب نہیں دیتا۔عمران خان کی یقین دہانی کے بعد عدالت کو بڑے پن کا مظاہرہ کر کے اس مقدمے کو نپٹا دینا چائیے۔۔ (جاری ہے)۔۔

۔،۔ دھاندلی پر خاموشی ۔،۔
طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)