اٹلی کے شمالی بولزانو (Bolzano) کے ریلوے سٹیشن پر ٹرین سے اُترتے واقت ھی دائیں جانب جس شے پر سب سے پھلے نظر پڑتی ھے، وہ سفید پھاڑ کی چوٹی پر چٹانوں سے نمودار ھوتا ھوا لفظ اللہ ھے۔ سارا سال برف سے ڈھکے معمر پھاڑ کی بلندیوں پر قدرت نے نوکیلے پتھروں کو ماھرانہ طریقے سے تراش خراش کر اپنا نام کچھ یوں کُنندہ کیا ھے کہ دیکھنے والے کی حیرت گم ھو جاتی ھے۔ اسی جگی سے ٹھیک 38 کلو میٹر دور قدرت کے بنائے ھوئے انسانوں نے آسمان سے باتیں کرتے ھوئے کھردرے اور سنگلاخ پھاڑوں کے بیچوں بیچ ایک ایسا عجیب و غریب ریلوے ٹریک بیچھا ڈالا ھے جس کے سامنے کھڑے ھو کر ناظر کی زبان گنگ اور عقل دنگ رہ جاتی ھے۔ ٹریک کی سمت انتھائی پستی سے انتھائی بلندی کی جانب کچھ یوں تھا جیسے کوئی اوپر سے نیچے کی جانب بالکل سیدھا ایک لکیر کھینچ دے جدید ٹیکنالوجی اور انسانی مھارت کی اس حیرت انگیز عجوبے کا نام مینڈل بان ھے، یہ صوبہ بولزانو کے نواحی شھر کلدارو میں واقع ھے۔
19 اکتوبر 2013 کی ایک چمکتی صبح آپنے پانچ سالہ بیٹے محمد بلال رضا کے ھمراہ بولزانو سے کلدارو جانے والی (Saad) کی بس سے اپیانو کے پرانے ریلوے سٹیشن سٹاپ پر عجلت میں اترا۔ میری نظریں کسی کو ڈھونڈ رھی تھیں۔ اسٹیشن بالکل خالی تھا۔ چند لمحے ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد وہ دور سے آتا ھوا دکھائی دیا۔ مسٹر لانا کھان بلال نے خوشی سے نعرہ مارا اور میرا ھاتھ چوڑا کر اس کی طرف بھاگ کھڑا ھوا۔ داتا کی نگری کا رانا محمد رفیق اس دینا میں میرا واحد دوست، بازو پھیلائے اپنے بھتیجے کی جانب والھانہ انداز میں بھاگتا جلد آ رھا تھا۔ مسٹر بلال خان میں نے دور سے آواز سنی۔ بولزانو سے ڈائرکٹ (Saad) کمپنی کی بس Mendal Bahn جاتی ھے۔ بس سے اترتے ھی سامنے ٹکٹ گھر ھے۔ بولزانو سے Mendel کا کرایہ پانچ یورو ھے (Altoadige Pass) بنوایا ھو تو دو یورو سے بھی کم کرایہ لگتا ھے بولزانو سے کلدارو کی بس پر سوار ھوتے ھی ڈرائیور سے پوچھ لینا چائیے کہ Mendel رُک کر آگے جائے گی۔
اگر وھاں نہ رُکے تو کلدارو سینڈ اُتر کر لوکل بس پر اُسی کرایے میں اگلی بس میں بیٹھ جائیں۔ اگلا پانچ سات منٹ کا ھے مینڈل پاس کا اطالوی نام فونی کو لارے دیلا مندولا (Funi Colare Della Medola) ھے جو ریلوے سٹیش کی عمارت کے اُپر بھی ہے۔ بولزانو میں اطالوی اور جرمن زبانیں بولی جاتی ھیں یھی وججہ ھے کہ ھر معلومات یا عبارت خواہ سرکاری ھو یا غیر سرکاری اس کی تشھر بیک وقت دونوں زبانوں میں کی جاتی ھے مینڈل کی طسماتی ٹرین کا یکطرفہ کرایہ 6 یورو اور آنے جانے کا سد یورو ھے۔ آلتوآدیجے پاس کے ذریعے آنے جانے کے چار سے بھی کم یورو خرچ ھوتے ہیں۔ تقریبا چار کلو میٹی کی مسافت پندرہ منٹ میں طے ھوتی ھے درمیان میں ایک سٹاپ بھی اتا ھے روانگی اور واپسی ھر چاکیس منٹ بعد ھوتی ھیں۔ صبح سات سے شام سات بجے تک ٹرین سروس مھیا ھو تی ھے 4 نومبر سے 15 دسمبر 2013 کے درمیان اس جادوئی دنیا میں آنے والے گھر سے روانہ ھونے سے قبل اس نمبر سے معلومات فوری طور پر حاصل کریں 840000471 ۔
Train
اس ایریا میں زیادہ تر لوگ جرمن ذبان بولتے ھے اٹالین زبان نہ آنے کی صورت میں انگریزی سے واقفیت یا کسی واقف کار کا ساتھ مفید ثابت ھو سکتا ھے۔ رانا رفیق کی دو عادتوں سے بڑا تنگ ھوں، لائن کاٹنا اور اُنچا بولنا۔ میں میں بلال اور رانا پلیٹ فارم کے باھر کھڑے تھے ٹرین آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ سیاحوں کی بھیڑ میں ھم تینوں غیر ملکی تھے رانا بلال کو پیار سے مسٹر بلال خاں بلاتا۔ جواب میں بلال توتھی زبان میں مسٹر لانا کھان کی صدائیں بلند کرتا۔ مختصر سا پلیٹ فارم دونوں کی چھیڑ خانی سے گونجتا تو سیاح بڑبڑا جاتے کچھ خفا ہو کر پرے چلے جاتے جو وہیں جما رہتے وہ رانا کی ٹکسالی زبان میں ترخلے سنتے اور آ گئی جے اُس نے نعرہ بلند کیا کچھ سمجھے کچھ اختیار پٹری کی جانب دیکھنے لگے۔
بل کھاتی پٹری کے اختتام پر عظیم پہاڑوں کے اندر سے سُرخ رنگ کی کوئی کھلونا نما چیز نیچے کی جانب حرکت کرتی ہوئی نظر آئی۔ اس کا سائز ایک عام ٹرین کی بڑی بوگی جتنا تھا جس رفتار سے وہ نیچے آ رہی تھی ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا کہ کہیں ٹرین پھسلتے ہوئے تیز رفتاری میں پلیٹ فارم کا جنگلہ توڑتے ہوئے سٹیشن سے باہر جا گرے۔ میری کنپٹیوں کی رگوں میں ہلکہ سا زیر وہم پیدا ہوا۔ ایمبولینس کے سائرن جیسی گھنٹی کی آواز ڈرائیور کے کیبن سے سنائی دی اور ٹرین ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ حرکت میں آ گئی۔ رینگتے رینگتے سپیڈ تیز ہو گئی مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ بلکل سیدھ میں انچائی کی جانب یہ اپنا سفر مکمل کریگے گی۔ کہیں دور آگے اُونچائی پر جا کر یہ لڑھک کر نیچے نہ آ گرے۔
اختتام پر باہر نکلتے ہوئے ٹکٹ پھر چینج کرنا پڑے گی میں نے اپنا دھیان دوسری جانب پھیرنے کی غرض سے ساتھ بیٹھی ڈھیڑ عمر عورت سے پوچھا نہیں اس کی ضرورت نہی اُس نے جواب دیا کیا تم اگلے سٹاپ پر اُتر کر پیدل اُوپر تک جاؤ گے؟ اُس نے بھی مجھ سے ایک سوال کیا ًہوں ً میں نے جواب دینے سے پہلے لاشعوری طور پر دائیں بائیں شیشوں سے باہر دیکھا دونوں جانب گھنا جنگل اور میلوں گہری کھائیاں، اُوپر دیکھا تو ہیت ناک پہاڑ جن کی چوٹیاں دُور آسمانوں میں گم ہو گئی تھیں۔ ویران جنگل میں موت کا سا سُناٹا تھا۔ میں نے اڈھیڑ عمر عورت کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا اچانک میری نظر رانا پر پڑی تو میری کیفیت دیکھ کر وہ بھی شیشوں سے باہر دیکھنے لگا۔ اگر یہ ٹرین اسی جگہ خراب ہو کر رُک جائے تو کوئی کسی راستے سے آ کر امداد بھی پہنچا سکے گا؟ میرے ذہن میں خیال کوندا، پہاڑی علاقوں کے لوگ دو لمبی چھڑیاں جن کے پاؤں نوکیلے ہوتے ہیں ہاتھوں میں پکڑے کئی کئی میل پیدل چلنے کے عادی ہوتے ہیں۔ تقریباً ڈھائی کلو میٹر کا سفر طے کر کے اُونچائی کے عین درمیان میں ٹرین آہستہ ہوتی ہوتی رُک گئی۔
Italy Track
یہ ٹرین کا سٹاپ تھا۔ ہر طرف خاموشی کا عالم تھا نہ انسان نہ حیوان کسی پرندے کی آواز تک نہیں آ رہی تھی۔ کسی ہوٹل یا رہائشی مکان کے کوئی آثار نہیں تھے۔ صرف پگڈنڈی جو نیچے کھائیوں کی طرف جا رہی تھی۔ اچانک ٹرین کا دروازہ کھلا وہی اڈھیر عمر عورت اپنی چھڑیاں سنھالتی ہوئی چھوٹے سے چبوترے پر چھلانگ مارنے کے انداز میں اُتری اور لمبے لمبے ڈھگ بھرتی ہوئی کھائیوں کی جانب جاتی ہوئی ڈھلوان کی جانب غائب ہو گئی۔
میں نے حیرانی سے رانا کی طرف دیکھا وہ پہلے تو سنجیدہ ہوا پھر قہقہ لگا کر اُسے صلواتیں سنانے لگا۔ ٹریک کے اختتام تک دائیں بائیں ہم نے کوئی راستہ اوپر کی طرف جاتے ہوئے نہ دیکھا۔ MENDEL.PASS کی بے مثال ٹرین کا سفر اور پہاڑوں کے اُوپر بسے ہوئے ایک مکمل شہر کی سیر نا قابل فراموش سیاحتی تجربہ ہے۔ 1363 میٹر کی بلندی سے بڑے بڑے پہاڑوں سمیت پورا شہر پاؤں کے نیچے بیچھا محسوس ہوتا ہے۔ گرمیوں میں یماں بے پناہ رش ہوتا ہے۔
سردیوں میں سکیٹنگ کرنے والوں کا ہجوم، بار اور ریسٹورینٹ سروس مہنگی ہے۔ ہوٹل بے شمار ہیں۔ مُستقل رہائش رکھنے کیلئے 120 ایارٹمنٹس پر مُستقل ایک وسیع و عریض حویلی ہے۔ یہ علاقہ صوبہ ترنتوس شمار ہوتا ہے۔ قیمتی نوادرات اور پتھروں کی بھرمار ہے۔ ایک قدیم میوزیم بھی ہے ٹرین سروس خراب ہو جائے تو واپسی کیلئے بس سروس موجود ہے۔ اُونچائی کے باعث آب و ہوا نہایت صحت افزا ہے۔ فیملیز ایک مکمل دن وقف کریں کھانا ساتھ بنا کر لائیں تو ساری زندگی اس کی ٹرپ بھلا نہ پائیں گے۔